کلبھوشن کی پھانسی اور عالمی عدالت

کلبھوشن پر مکمل تبصرہ بھی کرتا ہوں لیکن پہلے شاہ حسین کی یہ کافی دیکھ لیں
سجناں اساں موریوں لنگ پیو سے
بھلا ہویا گُڑ مکھیاں کھادا
اساں بھن بھن توں چھٹیو سے
ڈھنڈ پرائی کتیاں لکی
اساں ہتھ نہ منہ دھتو سے
کہے حسین فقیر نمانا
اساں ٹپن ٹپ نِکلو سے
کافی کے دوسرے مصرعے کا سادہ ترجمہ و تشریح کچھ یوں ہے کہ مکھیوں نے سارا گُڑ کھا لیا تو اچھا ہوا، مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے تو جان چھوٹی.. اب اس مصرعے کا کلبھوشن کے قضیے سے ربط جوڑنا آپ کا کام ہے..
پاکستانی عوام، حکومت اور فوج کے مطابق کلبھوشن تو متحرک دہشت گرد تھا جو کئی گروہوں کا سہولت کار دست راست اور بہت ساری عسکری کارووائیوں کا ماسٹر مائنڈ تھا. اور یہ سب کچھ پایہ ثبوت تک پہنچ چکا تھا اسی لیے اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی. اس موقع پر میرا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن دہشتگرد ہے، ماسٹر مائنڈ ہے تو اس کے جو سہولت کار ہیں پہلے انہیں لٹکاؤ، وہ تو اپنی ڈیوٹی پوری کر رہا تھا، مگر ہمارے ہاں جو کچھ لوگ اسکا ساتھ دے رہے تھے وہ کیا عزائم رکھتے ہیں، وہ کون ہیں کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں؟ پہلے تو یہ سب کچھ معلوم ہونا چاہیے.
اور پھر یہ کہ کلبھوشن دہشت گردی میں ملوث تھا، متحرک جاسوس تھا، سہولت کار تھا، ماسٹر مائنڈ تھا، اس کا نیٹ ورک بھی تھا وغیرہ وغیرہ اور آپ کے پاس ان تمام باتوں کے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں تو پھر اقوام متحدہ میں یا عالمی عدالت میں آپ اپنا مقدمہ پیش کریں۔ بلوچستان اور افغانستان میں انڈین کاروائیاں ثابت کریں. اگر کلبھوشن کے خلاف اتنے ہی ٹھوس شواہد موجود تھے تو پاکستان پہلے چلا جاتا انٹرنیشنل کورٹ میں! یونائیٹڈ نیشن میں معاملہ اٹھا لیتا! لیکن نہیں کیا گیا…
ہمیں سوچنا چاہیے تھا کہ کلبھوشن کو زندہ رکھنے میں پاکستان کا فائدہ ہے یا مارنے میں؟ ہم نے کلبھوشن پر تھرڈ ڈگری ٹارچر کیا، جو کچھ اُگلوا سکتے تھے اُگلوا لیا. اب کلبھوشن خالی ہو چکا اس کے پاس کوئی انفارمیشن نہیں بچی تو اب اس کو مزید کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے، ہمیں سوچنا چاہیے تھا. اس کے بدلے اپنے مطالبات منوائیں، قیدی چھڑوائیں، انڈیا اپنے نیوی آفیسر کے لیے ہمارے دو سو ماہی گیروں کو بھی چھوڑنے کو تیار ہو جائے گا. لیکن ہم نے ڈپلومیسی کی بجائے یہاں بھی اندھے پن کا مظاہرہ کیا اور اب یہ حال ہے کہ ہمیں کلبھوشن تک رسائی بھی دینی پڑے گی، اسے وکیل بھی دینا پڑے گا اور اِن دی اینڈ آف دی ڈے ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آئے گا. ہمیں سوچنا چاہیے تھا، مگر ہم نے قسم کھائی ہے کہ نہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کریں گے نہ ہی کسی دوسرے سے کچھ سیکھیں گے.
حق بات تو یہ ہے کہ فوج نے کلبھوشن کو بھی پاکستانی طالبان سمجھ لیا تھا، جسے ناکافی شواہد پر بھی لٹکایا جا سکتا ہے. لیکن وہ انڈین ہے، اس کا خون پاکستانی جتنا سستا نہیں. اور اب فوج اور حکومت دونوں بغلیں جھانک رہے ہیں کہ انٹرنیشنل عدالت کو کیا جواب دیں، انڈیا کو کیا جواب دیں اور اپنے عوام کو کس گولی سے مطمئن کریں.

Advertisements
julia rana solicitors

1999 میں بھارت کے جنگی طیاروں کی جانب سے پاکستان نیوی کے ایک جہاز کو مار گرایا تھا جس میں نیوی کے 16 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان نے اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھایا تھا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ بھارت کے جنگی جہازوں نے ایک غیر مسلح طیارے کو مار گرایا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی جانب سے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا اور عدالت کے سولہ رکنی بینچ نے اپنے ایک منقسم فیصلے میں اس مقدمے کو نہ سننے کا اعلان کیا تھا۔ سولہ رکنی بینچ کے چودہ ججوں کا موقف تھا کہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے جبکہ دو ججوں نے مقدمہ سننے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
پاکستان کو بھی چاہیے تھا کہ عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرے لیکن جب پاکستان نے عدالت کا دائرہ اختیار خود قبول کر لیا تو ایک لمحے کے لیے مجھے بھی آسرا ہوا کہ شیروں کی حکومت ہے ہو سکتا ہے شیور شاٹ ہوں، ہو سکتا ہے کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہوں جنہیں عالمی عدالت نظرانداز کر ہی نہ سکے، لیکن عالمی عدالت نے دو دن میں ہی پاکستانی غبارے کی ہوا نکال دی، اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا..
مضمون کا اختتام اس لطیفے سے کرتا ہوں کہ ایک فوجی اپنے افسر کے پاس چھٹی کی درخواست لے کر پہنچا تو آفیسر نے اسے سرزش کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کوئی کارنامہ تو کرکے دکھاؤ تاکہ میں تمھیں چھٹی دے سکوں۔
فوجی دوسرے دن حاضر ہوا تو اس کے ساتھ دشمن ملک کا مقبوضہ ٹینک بھی تھا۔ آفیسر بہت حیران ہوا اور اس نے خوشی خوشی فوجی کی چھٹی کی منظور کرلی۔۔۔
چلتے ہوئے اس نے فوجی سے پوچھا ۔۔تم نے اتنا بڑا کارنامہ اکیلے کیسے سر انجام دے دیا ۔۔
فوجی نے لاپرواہی سے جواب دیا “کیسا کارنامہ جناب، جب اُن کو چھٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ہمارا ٹینک لے جاتے ہیں، جب ہمیں ضرورت ہو تو ہم ان کا لے آتے ہیں۔
تو جناب یہ جاسوسوں کا لین دین پچھلے ستر سال سے یونہی چل رہا ہے اور آگے بھی چلتا رہے گا، زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے. آپ رات نو بجے والی خبریں دیکھئیے اور سو جائیے.

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply