چلتے ہو تو تفتان کو چلیے۔۔نذر حافی

رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان کے سب سے بڑے ضلع کو چاغی کہتے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے بھی یہیں کئے گئے تھے۔ یہاں پر جنگلی حیات کی مشہور شکارگاہیں بھی ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہونے کے باوجود چاغی انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے اعتبار سے آج بھی عقب ماندہ ہے۔ چاغی کے شہر تفتان کو پاکستانی اقتصاد اور تجارت کا دروازہ سمجھئے۔ ماضی قریب میں یہاں ستر کے لگ بھگ کلیئرنگ ایجنٹس اور سات ہزار کے قریب قُلی کام کرتے تھے۔ تب بھی بنیادی سہولتوں سے محروم تفتان دشت کا نقشہ پیش کیا کرتا تھا۔ خیر ہم نے شہر میں پڑاو تو نہیں ڈالنا۔ البتہ ایک پاکستانی ہونے کے ناتے اس کی تعمیر و ترقّی کیلئے دعا گو ہیں۔ تفتان شہر پاکستان اور ایران کے بارڈر پر واقع ہے۔ بارڈر عبور کرنے والے پاکستانی جون اور جولائی کی سخت گرمی میں بھی بغیر سائے اور پانی کے قطاروں میں لگے ہانپتے رہتے ہیں۔

یہاں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد عوام کی قطار شہد کی مکھیوں کے چھتّے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بارڈر سے تین طرح کے لوگ زیادہ گزرتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں تاجر کہتے ہیں، دوسرے زائرین اور تیسرے طالب علم۔ تاجر برادری قطار بنانے پر معترض ہے۔ ان کے بقول انہیں قطار میں کھڑا کرنا اُن کے ساتھ زیادتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس صرف ایک پاسپورٹ ہوتا ہے جبکہ طالب علموں اور زائرین میں سے اکثر کے پاس متعدد پاسپورٹ ہوتے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ مسئلہ توجہ طلب ہے۔ متعلقہ حکام کو تاجروں کے لئے الگ آدمی رکھنا چاہیئے۔ اسی طرح زائرین کے ساتھ ہونے والا برتاو بھی قابلِ تامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تفتان بارڈر کے ذریعے بڑے پیمانے پر انسانی اسمگلنگ کا کام ہو رہا ہے۔ پاکستان بھر سے ایجنٹ حضرات لوگوں کو یورپ کا جھانسہ دے کر اسی بارڈر سے ایران میں داخل کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سارے لوگ ایسے نہیں ہوتے۔

اسٹاف کا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا نہیں ہونا چاہیئے۔ مثال کے طور پر ایک زائر سے پوچھا گیا کہ تم ایران کیوں جانا چاہتے ہو؟ اُس نے جواب میں کہا کہ میری ٹانگ کا چند مرتبہ آپریشن ہوا تو ٹھیک نہیں ہوئی، اس لئے میں امام رضا ؑ کے مزار پر جا کر دعا کرنا چاہتا ہوں۔ آگے سے سرکاری اہلکار نے کہا کہ دوائی تجھے میں بتاوں گا، لہذا واپس دفع ہو جاو۔ ایسے واقعات کا تعلق اہلکاروں کے ذاتی رویّے سے ہے۔ عوام کے عقائد سے سرکاری اہلکاروں کا کیا سروکار۔ کسی آدمی کو ایک مرتبہ زیارتی ویزہ ملنے کے بعد بارڈر پر اُس کے ساتھ اس طرح کی گفتگو پر قانونی گرفت ہونی چاہیئے۔ ایک تو گرمی کے مارے ویسے ہی بغیر سائبان کے آفتاب سوا نیزے پر چمک رہا ہوتا ہے اور اوپر سے لوگوں کے عقائد کے ساتھ چھیڑ خانی، یہ سراسر بے وقوفی ہے۔ جہاں لوگوں کو سایہ اور ٹھنڈا پانی فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، وہیں اہلکاروں کو اُن کا قانونی دائرہ کار بھی سمجھانا متعلقہ حکام کیلئے لازمی ہے۔

اب آئیے طلباء کی حالتِ زار کی طرف۔ اُن سے یہی پوچھا جاتا ہے کہ کس کلاس میں پڑھ رہے ہیں؟ کیا پڑھ رہے ہیں؟ پڑھ کر کیا کریں گے؟ پرائمری کے ماسٹر صاحب کا نام کیا تھا؟ ہائی سکول کی ماسٹریانی کون تھی؟ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟ جیب خرچ کون دیتا ہے؟ پیسے ختم ہو جائیں تو پھر کیا کرتے ہیں؟ (بغیر مذاق کے یقین جانئے انہی سوالات کے لئے لوگوں کو گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو نوکریاں دینے کیلئے یہ کام شروع کیا گیا ہے۔ بہرحال چلیں کسی کے گھر کا چولہا تو جلتا ہے۔) آخر میں ہم اپنی مندرجہ ذیل نو تجاویز کے ساتھ اپنے کالم کو خلاصہ کرنا چاہتے ہیں:
1۔ تاجر حضرات کیلئے الگ لائن اور علیحدہ آدمی کا بندوبست کیا جائے۔
2۔ ویزہ ملنے کے بعد زائرین کو زِچ نہ کیا جائے۔
3۔ لوگوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹس اور قافلہ سالاروں کو پاکستان کے اندر ہی قرار واقعی سزائیں دے کر اس غیر قانونی کاروبار کا حقیقی معنوں میں خاتمہ کیا جائے۔
4۔ بارڈر پر لوگوں کیلئے سائبان اور ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا جائے۔
5۔ طلبا اپنے بارے میں ساری معلومات کو لکھ کر اپنے پاس رکھ لیا کریں، تاکہ فوری جوابات دے سکیں۔

6۔ عملے سے شکایت کی صورت میں شکایات باکس موجود ہوں اور فوری مدد کیلئے ٹیلی فون نمبرز بارڈر پر جگہ جگہ جلی حروف میں لکھے جائیں۔
7۔ بارڈر پر موجود اسٹاف کو وطن سے باہر جانے والے پاکستانیوں کو وداع کرنے اور واپس آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کی ترغیب دی جائے اور اس نہج پر اسٹاف کی تربیت کی جائے۔
8۔ بچوں کے ساتھ اہلکاروں کا رویہ مثالی ہونا چاہیئے۔ اس حوالے سے انہیں خصوصی ٹریننگ دی جائے۔ ہمارے بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔ بارڈر پر پاکستانی اداروں کے بارے میں ان کے اذہان میں جو تصویر بنتی ہے، وہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان سے باہر جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے پاکستانی بچوں کے دلوں میں قانون کے احترام اور ملک کے تقدس کا جذبہ بیدار ہونا چاہیئے۔
9۔ زائرین اور طالب علموں کیلئے جن اشیاء کے نقل و حمل پر پابندی ہے، اُن کی فہرست جاری اور آویزاں ہونی چاہیئے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ کتابیں اور لیپ ٹاپ ممنوع ہیں۔ علم اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایسی پابندی سے ملک کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ہاں اگر کچھ خاص کتابوں پر پابندی ہے تو اُن کی فہرست جاری کر دی جانی چاہیئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہتری اور ترقی کے امکانات ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ امید ہے کہ ہماری یہ چند تجاویز تفتان بارڈر کی بہتری اور ترقی میں ممد و معاون ثابت ہونگی۔ اس سے عوامی شکایات میں کمی ہوگی، انسانی مشکلات کا خاتمہ ہوگا اور بارڈر پر تعینات سرکاری عملے اور عوام کے درمیان اچھے روابط استوار ہونگے۔ ہماری دعا ہے کہ تمام پاکستانیوں کا ہر سفر خوشی، نشاط اور شادمانی کے ساتھ اختتام پذیر ہو اور جہاں پر بھی جو سرکاری اہلکار اپنے پاکستانی بھائیوں کی خدمت، حفاظت اور سلامتی پر مامور ہیں، خداوندِ عالم اُنہیں اجرِ عظیم عطا کرے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply