سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ فورم اور گلگت بلتستان کا مقدمہ

یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان اور چین کی شراکت داری کی بنیاد پر اقتصادی راہداری کے حوالے سے میڈیا پر خبریں چلنے لگیں، تو گلگت بلتستان میں ایک خوشی کا سماں تھا اور سمجھا جا رہا تھا کہ اس تاریخی منصوبے سے جس طرح باقی دنیا کو فائدہ ہوگا با لکل اسی طرح ستر سالوں سے بنیادی، سیاسی، انسانی اور آئینی حقوق سے محروم خطے کی جھولی بھی بھر جائے گی۔یہاں بھی تجارت اور تعلیم کے مواقع پیداہوں گے، اس خطے کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کو بھی اس منصوبے کے ذریعے مملکت پاکستان کی خدمت کرنے کا موقع ملے گا۔لیکن یہ سہانا خواب اُس وقت چکنا چور ہوگیا جب اس تاریخی منصوبے میں گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو بنیاد بناکر اہم فریق بنانے کی بجائے سیاسی نعروں کا لولی پاپ دیا گیا۔سی پیک جیسے گیم چینجرمنصوبے میں اس منصوبے کے گیٹ وے کی حیثیت رکھنے والے خطے میں مقامی مراعات یافتہ طبقے کے ذریعے جس طرح دیامر بھاشا ڈیم میں گلگت بلتستان کو ڈبو کر پختون خواہ کو فائدہ پہنچا کر عوام کو گمراہی میں رکھا گیا بالکل اسی طرح مقامی حکومت کے ذریعے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر سیاسی بیانوں اور دعوؤں کی بنیاد پر اس عظیم منصوبے سے گلگت بلتستان کو کچھ ملتا ددکھائی نہیں دے رہا۔
ایک عجیب المیہ ہے کہ اس عظیم ملک میں غریب پرور اور وطن دوست حکمرانوں کا فقدان ہے یہاں پاکستان سے بے پناہ محبت اوراس ملک کی بقاء کےلئے تن من دھن کی قربانی دینے پر فخر محسوس کرنے والوں کے ساتھ ہر معاملے میں سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔یہاں کے عوام کی دیرینہ خواہش اور مقامی قانون ساز اسمبلی سے کئی بار آئینی صوبے کے لئے متفقہ قراداد منظور ہونے کے باجود حکمرانوں کے ماضی میں کیے گئے غیر سنجیدہ فیصلے آج بھی اس عظیم خطے کاپاکستان کا حصہ بننے کی راہ میں رکاوٹ ہیں،اور بین لاقوامی قوانین،خارجہ اور کشمیر پالیسی پاکستان کے لئے گلے کا طوق بنا ہوا ہے ۔ جس کے سبب سیاسی نعروں سے ہٹ کر جب فیصلے کا وقت قریب آتا ہے تو یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ یہ خطہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے،یقیناًہمارے عوام کو اس قسم کی باتوں سے بڑا دکھ پہنچتا ہے لیکن جو دستور اور آئین میں لکھا ہے اُس پر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔یہی سبب ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اور نئی نسل نے اب سوال اُٹھانا شروع کیا ہے کہ سی پیک نہ صرف پاکستان کیلئے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا بلکہ اس عظیم منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا ء کے تقریباًتین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گا، اس منصوبے کے ذریعے مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباً نصف آباد ی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان اور چین کے اشتراک سے گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہا ہے اسی طرح پائپ لائنوں کے ذریعے تیل اور گیس دونوں ملکوں کے درمیان منتقل ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ بلند و بانگ دعوؤں کے باجود گلگت بلتستان کو سی پیک میں کچھ بھی نہیں مل رہا۔نئی نسل کا یہ سوال ایک طرح سے درست بھی ہے کیونکہ اگر ہم سی پیک کی آفیشل ویب سائٹ www.cpec.gov.pk اور www.cpecinfo.com پر جاکر پروجیکٹس کی مکمل تفصیلات چیک کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کو کس طرح نظرانداز کیا جارہا ہے لیکن جن افراد کے پاس طرزی عہدے ہیں وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کو غیرملکی دورے کرائے جاتے ہیں حالانکہ متازعہ حیثیت کے سبب مقامی وزیر اعلیٰ یا کوئی بھی شخص قانونی طور پر یہ مجاز نہیں رکھتاکہ کسی بھی قسم کے معاہدے میں بطور سٹیک ہولڈر نمائندگی یا فیصلے کرے۔لہذا ضرورت اس امر کی تھی کہ اس اہم بین الاقوامی پروجیکٹ میں گلگت بلتستان کی متازعہ حیثیت کے سبب ایک فریق کا کرادرکریں لیکن اس اہم منصوبے میں مقامی حکومت کی جانب سے (مقپون داس) کے مقام پر اکنامک زون بنانے کے حوالے سے دعوی ٰ سامنے آیا ہے مگر ایک تو یہ جگہ عوامی ملکیت(جسے مقامی لغت میں خالصہ سرکار کہا جاتا ہے) متنازعہ ہے لہذا پہلے اس مسئلے کو حل کر نے کی ضرورت ہے، دوسری جانب آفیشل ویب سائٹ میں اس پروجیکٹ کا کوئی ذکر بھی نہیں۔ یوں اس تمام صور ت حال کو دیکھ کر گلگت بلتستان کے عوام نوحہ کناں تھے۔
اچانک روڈ این بیلٹ فورم سامنے آیا اور اس فورم میں بیس سے زیادہ ممالک نے شرکت کی اور پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک دفعہ پھر گلگت بلتستان کی متازعہ حیثیت کو واضح کرتے ہوئے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے ساتھ اس فورم میں شرکت ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ نامی عالمی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چین نے کروڑوں ڈالر لگانے کا وعدہ کیا ہے جو کہ بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے میں صرف کیا جائے گا۔چین نے اس منصوبے کے لئے 124 ارب ڈالر کی سکیم کا عہد کرتے ہوئےتجارت معاشی ترقی کا اہم ذریعہ ہےکا نعرہ لگایا ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اس منصوبے کے تحت ایشیائی اور افریقی ممالک کے ملاپ کی کوشش ہوگی۔اس اہم منصوبے کے تحت قدیم سلک روٹ یا شاہراہ ریشم کو دوبارہ قائم کرنا شامل ہے اور اس کے لیے بندرگاہوں، شاہراہوں اور ریل کے راستوں کے بنانے میں سرمایہ کاری کی جائے گی تاکہ چین کو ایشیا، یورپ اور افریقہ سے جوڑا جا سکے۔صدر شی جن پنگ نے اپنے اس عالمی منصوبے کو صدی کا پراجیکٹ قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کی اس سوچ کا مقصد خوشحالی کے لیے مجموعی اور قابل عمل ترقی کے ذریعے مختلف ممالک اور علاقے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔یوں اس منصوبے کے تحت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تقریباً 60 ممالک تجارت میں منسلک ہو جائیں گے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک اور تاریخی منصوبے میں گلگت بلتستان کو متازعہ حیثیت کے سبب بالکل ہی نظرانداز کیا گیا،یوں اس قسم کے منصوبوں سے عالمی طاقتوں یورپ افریقہ کو خوب فائدہ ہوگا لیکن گلگت بلتستان کو طرزی لوگ اور نظام پر گزارہ کرنا پڑے گا جوکہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ اور ظلم عظیم ہے۔ گلگت بلتستان کا شمار پہلے ہی انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک طرح کے متاثر ہ ترین خطے میں کیا جاتا ہے مختلف جنگوں کے سبب اس خطے کا تقسیم در تقسیم ہونا جس کے سبب ہزاروں خاندان ایک دوسرے سے بچھڑگئے لیکن سکردو کرگل روڈ، خپلو ترتک اور استور سری نگر روڈ کھولنے کے لئے کوئی تیار نہیں، دوسری طرف مظفر آباد ،واہگہ اور دیگر ایل او اسی اور سرحدوں کے ذریعے تجارت کےلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے سمجھ سے بالاتر ہے، سی پیک سے لے کر ون بیلٹ تک کے سفر میں اس خطے کو نظر انداز کر نا اور یہاں ا س قسم کے قومی حقوق کی بات کرنے والوں پر مقدمات بنانا مقامی حکومت کی کوتاہی اور وفاقی حکومت کی زیادتی ہے۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام منصوبوں کی کامیابی کے لئے گلگت بلتستان کی زمینوں کا استعمال ضروری ہے اور یہ خطہ بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ خطہ ہے، لہذا اس خطے کو ایک فریق کے طور پر معاہد ہ کرکے اس خطے کے حقوق کی پاسداری ضروری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تمام تر صورتحال صاف اور شفاف ہونے کے باوجود مقامی حکومت کو اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ گلگت بلتستان کے اصل مسائل کیا ہیں؟ یہاں آج بھی لوگ دوا اور ایمبولینس نہ ملنے کی وجہ سے لقمہ اجل بننے کی وجوہات کیا ہیں؟ تعلیم گلگت بلتستان کی قسمت میں کیوں نہیں ہے ؟ یہاں صنعتیں لگانا کیوں ضروری نہیں سمجھا جاتا،حالانکہ یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ بس ایک شناخت کی کمی ہے جس کے سبب آج سی پیک سے بھی دور رکھا جارہا ہے ،روڈ این بیلٹ فورم میں بھی گلگت بلتستان کو نظرانداز کیا جارہا ہے،یہاں تک کہ ملکی سطح پر این ایف سی کے ایوارڈ کا بھی یہ خطہ حقدار نہیں ، جو ٹیکس لیا جاتا ہے وہ قانونی لیکن عوام غیر قانونی،ٹیکس واپس دینے کا مطالبہ کرنا کسی کی مجال نہیں، گندم سبسڈی پر بھی احسان کیا جاتا ہے لیکن دریائے سندھ(سنگے چھو) کے پانی کی رائلٹی دینے کیلئے تیار نہیں۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں قائد اعظم کے نظریے پر حکمران عمل پیرا نہیں ہیں ۔ آخر میری دعا ہے کہ گلگت بلتستان میں جن افراد کے پاس طرزی عہدے ہیں اُن کے اندر قومی شعور بیدار ہوجائے اور وفاق کے حکمرانوں کو گلگت بلتستان پر ترس آئے اور اس خطے کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حقوق دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply