افغانستان بین الاقوامی سفارتی آداب بھی بھول گیا

افغانستان بین الاقوامی سفارتی آداب بھی بھول گیا
طاہر یاسین طاہر
ہمارے پڑوس میں واقع افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک،کسی نہ کسی طرح پاکستان کے خلاف سفارتی،سیاسی و تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہی رہا۔ جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اس ملک کے مفادات کو مقدم جانا اور افغانوں کی خاطر اپنی معاشی،معاشرتی حیات تک کی قربانی دے ڈالی۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے سفارتی اہلکاروں کو حراساں کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔گذشتہ سے پیوستہ روز پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغان نائب ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے دو اہلکاروں کو حراست میں لیے جانے کے واقعے پر شدید احتجاج کیا ہے۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق افغان نائب ناظم الامور کو بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کے منافی ہے اور دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کی روح کے خلاف ہے۔
افغان اہلکار سے مزید کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچائیں گے اور اس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ مستقبل میں افغان حکومت ایسے اقدام اٹھائے گی جس سے پاکستان کے سفارت خانے کے اہلکاروں کی جان و مال کو خطرہ پیش نہ آئے اور نہ ہی ایسے واقعات دوبارہ رونما ہوں۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کی سرحد پر جھڑپوں کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثنا پاک ،افغان وفد کی چمن میں باب دوستی پر ون اسٹار بارڈر فلیگ میٹنگ منعقد ہوئی جہاں پاکستان نے اپنی افواج کو سرحد سے ہٹانے کے افغانستان کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی افواج کو سرحد پر ہی تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دونوں ممالک نے پاکستانی علاقوں میں مردم شماری کا عمل مکمل ہونے تک سرحد پر سیزفائر پر اتفاق کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق افغان حکام نے پاکستان سے سرحدی علاقوں کلی جہانگیر اور کلی لقمان پر تعینات اپنی افواج کو سرحد سے ہٹانے کا کہا جس پر پاکستانی وفد نے افغان وفد کو بتایا کہ پاکستانی افواج بین الاقوامی سرحد پر پاکستانی حصے میں تعینات ہیں اور وہ وہیں رہیں گی۔
یہ امر حیرت افروز ہے کہ وہ ملک جس نے افغانستان میں امن کے قیام کو اپنی ترجیحات میں نہ صرف اول رکھا ہوا ہے بلکہ اس حوالے سے مقامی و عالمی سطح پر پاکستان کوششیں بھی کرہا ہے،مگر دوسری جانب افغان حکومت بھارتی لابی کے زیر اثر پاکستان میں تخریب کاری کروانے اور پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دینے تک کے واقعات میں ملوث ہے۔ہم ان ہی سطور میں لکھتے رہتے ہیں کہ افغانوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ ان کی مشکلات کا ذمہ دار پاکستان ہے یا ،یہ کہ وہاں جو خانہ جنگی ہے اس کی پشت بانی پاکستان کر رہا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے،کیونکہ تزویراتی طور پر افغانستان میں امن کا قیام ہی پاکستان کے لیے سازگار ہے۔
ہاں البتہ یہ سچ ہے کہ افغانوں کی سیاسی،معاشی و خانہ جنگی مشکلات کی بنیادی اور پہلی وجہ ان کا قبائلی طرز حیات ہی ہے۔اگر پاکستان افغانستان کا دشمن ہوتا تو پاکستان کیوں افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے معاشرے میں سمو لیتا اور ان کی مہمان نوازی کرتا۔بلکہ ابھی تک لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔یہ پاکستان ہی ہے جس نے افغانوں کے شانہ بشانہ افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑی اور اس جنگ کی حکمت عملی بنائی۔یہ افغانستان کی بڑی ناقص اور تکلیف دہ حکمت عملی ہے کہ کبھی اس کی فورسز پاکستان کے سرحدی علاقوں پر گولہ باری کرتی ہیں تو کبھی میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے کے اہلکاروں کو حراست میں لے کر انھیں ذہنی اذہت دی جاتی ہے۔
اگر پاکستان نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تو افغانستان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔دنیا افغانوں کے قبائلی رواج کے مطابق نہیں ڈھالی جا سکتی۔انھیں اپنے ملک سے پہلے آپ محبت کرنا ہو گی اورہر افغانی کو اپنے ملک میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانوں کی خانہ جنگی ان کی سماجی حیات کا حصہ ہے۔ افغانستان کی نادان حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply