یہ لوگ آپ کی اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کی طرح چھپے ہوئے ہیں جو اپنے اپنے ذاتی عناد، مفاد اور فائدوں کے لیے آپ کے قومی مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک مقولہ ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دشمن سے زیادہ نقصان نادان اور مفاد پرست دوستوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے. جولیس سیزر کا دست راست بروٹس ہویا اندلس کا ابوعبداللہ۔ میر جعفر ہو یا میر صادق۔۔۔۔یا پھر دور حاضر کا حسین حقانی ہو۔۔۔۔۔ قوم و ملت کے نقصان میں یہی دوست نما دشمن پیش پیش رہے ہیں۔
پچھلے دنوں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرتے ہوئے اس کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہوا تو فاٹا کی حیثیت تبدیل کرنے کے خلاف سب سے زیادہ آواز فاٹا سے ووٹ حاصل کرنے والے فضل الرحمٰن اور محمودخان اچکزئی نےاٹھائی۔
کچھ یہی حال آزاد کشمیر کا بھی ہے۔ یہاں اختیارات زیادہ تر کشمیر کونسل کے پاس ہوتے ہیں، یہ کونسل گیارہ افراد پرمشتمل ہوتی ہے کونسل کا سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے اور کونسل کے ممبران کی اکثریت بھی پاکستان سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ کا کثیر حصے کے علاوہ ٹیکس وصولی کے سارے معاملات اور بون محکمے کونسل کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
کشمیر کونسل کے خاتمے کے حوالے سے بہت عرصے سے کوششیں چلی آرہی تھیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پچھلے دنوں کشمیر کونسل کے اختیار محدود کرتے ہوئے اس کی حیثیت ایک مشاورتی سطح کی کر دی۔ لیکن شومئی قسمت یہاں بھی کچھ “اپنے” ہی آڑے آئے۔ اپنے تین سالہ اقتدار کی خاطر انہوں نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کے اس حکم کو منسوخ کیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں ایسے غداروں کوملک کے اندر رہنے ہی نہیں دینا چاہیے۔ ان سانپوں کا کام ڈسنا ہوتا ہے انہیں دودھ پلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ جہاں بھی نظر آئیں جب بھی دکھائی دیں ان کی اصلیت کو کبھی مت بھولیں اور انہیں کبھی ووٹ مت دیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں