• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان ٹوٹے گا جب ٹوٹے گا،عوام ٹوٹ چکے ہیں ۔۔۔اسد مفتی

پاکستان ٹوٹے گا جب ٹوٹے گا،عوام ٹوٹ چکے ہیں ۔۔۔اسد مفتی

آیئے آپ سے چند باتیں کرتے ہیں۔ مختلف مسائل پر تو کالم اور مضامین آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں اور انکے بارے میں آپ کوئی نہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہوں گے لیکن آج آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک عزیز کی اکثریت کی زندگی کا وجود دور کٹھن ہے، مشکلات میں گرفتار زندگی میں انتشار ہونا ناگزیر ہے۔ یہ انتشار نظریاتی بھی ہے، سیاسی اور معاشرتی بھی، ہم سب اپنی اپنی انفرادی زندگی کے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن اس بات سے تو آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ انفرادی الجھنوں اور مسائل کی ذمہ داری ہماری معاشرتی زندگی پر عائد ہوتی ہے۔

یہ احساس معاشرتی شعور کی پہلی سطح ہے۔ تعلیم یافتہ، نیم تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان پر یہ کلمہ ضرور آتا ہے کہ حکومت یہ نہیں کرتی وہ نہیں کرتی۔ مہنگائی ہو یا جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار کرپشن ہو یا رشوت ستانی، ٹریفک کا مسئلہ ہو یا سڑکوں کی مرمت کا، ہم سب حکومت ہی کو زیربحث لاتے ہیں۔ اگر ہمارے ان جذبات کو معاشرتی شعور سے تعبیر کیاجائے تو پھر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہم سب لاشعوری طور پر ہی سہی ایسی حکومت کے خواہاں ہیں جو ہمارے تمام معاشرتی، معاشی، سماجی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کی ذمہ دار ہو۔

ہماری یہ خواہش بھی غیر شعوری کہی جاسکتی ہے کہ شعوری طور پر آسودہ زندگی ہمارا انفرادی مطمع نظر ہے اور آسودگی مال و دولت اور زر کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ زر، سرمایہ یا دولت کے حصول کیلئے ہم دن رات مصروف رہتے ہیں، ہمارا ہر کام سرمایہ حاصل کرنے پر مبنی ہوتا ہے لیکن ہماری اس تگ و دو اور جدوجہد اور ہماری معاشی و معاشرتی زندگی میں تضاد موجود ہوتا ہے۔ یہی تضاد ہماری ذہنی پریشانی کا موجب ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی، معاشرتی یا انفرادی زندگی کے اس تضاد کو کیسے دور کیا جائے کہ جب تک انفرادی اور معاشرتی زندگی میں توازن نہیں پیدا ہوگا اس وقت تک انفرادی طور پر بھی سکون و راحت و اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔ معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں ان نظریات میں وہ لوگ جو انفرادی زندگی کو معاشرتی زندگی کا منبع قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اخلاق اور مذہبی لگاؤ  اختیار کرنے سے معاشرے کی حالت خود بخود درست ہوجائے گی۔

یہ نظریہ انفرادی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اہل علم حضرات بھی سرمایہ سے تہی دامن ہوں تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ لہٰذا ہم اپنے گرد و پیش کے حقائق اور زندگی کے رجحانات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نہ صرف ہماری انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کا محور سرمایہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ آتاکہاں سے ہے اور اسکی تقسیم اور ملکیت کا کیا راز ہے؟ عام سی بات ہے انسان کو جب اسکے بھلے کی بات کہی جائے تو وہ اسے دیر یا بدیر اختیار کرلیتا ہے لیکن 71برس سے مسلسل ہماری زندگی اجتماعی زندگی اور انفرادی زندگی کچھ ایسی ڈگر پر چل رہی ہے جہاں بھلائی اور نیکی محض خالی خولی الفاظ رہ گئے ہیں جب ہم معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا زاویہ نگاہ بھی انفرادی اور نجی قسم کا ہوتا ہے، ہر فرد لاشعوری طور پر مادہ پرست ہے۔

یعنی ہر شخص خارجی زندگی میں اپنا مستحکم مقام بنانے کے درپے ہے اور اس کے لئے وہ ہر ذریعہ کو اختیار کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہے آسودہ زندگی ہر فرد کا نصب العین ہے۔ آسودگی سرمایہ سے حاصل ہوتی ہے چنانچہ سرمایہ کا حصول ہر فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کا محور بن چکا ہے اس کے گرد ہمارے معاشرے کی زندگی گھوم رہی ہے۔

سوال پھر وہی آپڑتاہے کہ جس سرمایہ کے لئے ہم یہ سب جتن کرتے ہیں وہ آتا کہاں سے ہے؟ پیداواری عمل جو محنت ہے۔ اناج پیدا کرنے سے لے کر کسی کارخانے میں کوئی چیز تیار کرنے میں محنت ہی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہیں اس سے سرمایہ مخصوص طبقے کے ہاتھ میں رہتاہے۔ اور جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہمارے معاشرتی نظام کی بنیاد یہی نجی ملکیت ہے۔ نجی ملکیت کو ختم کردیا جائے (یا ایک حد تک) اور ذرائع پیداوار پر ان لوگوں کی ملکیت تسلیم کی جائے جو پیداواری عمل میں شامل ہوں تو اس سے معاشرے کے ہر فرد کی زندگی پر اچھا اثر پڑے گا۔

ایسے معاشرے میں حکومت کا تصور بھی وہ نہیں رہتا جو ہمارے ہاں گزشتہ 71برسوں سے جاری ہے ہم جیسے ملک میں ہمیشہ صاحبِ اثر و رسوخ عوام کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور صاحب اثر و رسوخ وہی ہوتے ہیں جو صاحب املاک ہوں لیکن جب سرمایہ کی نوعیت میں فرق آجائے گا تو اس سے منتخب نمائندہ کی حیثیت و شخصیت میں بھی فرق آجائے گا۔ صاحب اثر ہونے کے لئے سرمائے کی جگہ علم، دانش، تجربہ اور لوگوں کی خدمت معیار ٹھہرے گا یا ٹھہرایا جائے گا۔ اور یوں نظام میں تبدیلی پیدا ہوگی۔

لیکن ایسے نظام کو وہ لوگ رد کرتے ہیں بلکہ اس کی مخالفت کرتے ہیں جو نجی ملکیت کو ایک عطیہ ربانی سمجھتے ہیں وہ نجی ملکیت کا جواز مذہب اور روایات میں پیش کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہےکہ یہ لوگ معاشرے کی زبوں حالی اور انفرادی اخلاق کی پستیوںکے بارے میں زیادہ چیختے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہ آپ کا کام ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے تضاد پر غور کریں ورنہ بقول حفیظ جالندھری ہم جس مقام پر ہیں وہاں سب مزے میں ہیں خسارے میں اگر کوئی ہے تو وہ ملک ہے، قوم ہے معاشرے ہے اور آزادی ہے۔۔
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت معمول میں ہے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply