• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسئلہ فلسطین اور چوہدری ظفراللہ خان۔۔۔راشد احمد

مسئلہ فلسطین اور چوہدری ظفراللہ خان۔۔۔راشد احمد

مؤرخہ 28نومبر کو مکالمہ پہ آصف جیلانی صاحب کا مضمون ’’پاکستان کے صیہونی‘‘ شائع ہوا جس میں علاوہ دیگر باتوں کے موصوف نے فرمایا کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب اسرائیل کے قیام کے حامی ،اسرائیل نواز ،برطانوی راج کے وفادار اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی سے رابطے میں تھے۔یہ کچھ لکھنے سے قبل صاحب مضمون نے اس امر کا تذکرہ شاید غلطی سے کردیا  ہے کہ  سرظفراللہ خان نے  فلسطین اور عرب کاز کی پرزور وکالت کی تھی اور عرب دنیا میں مقبول ہوگئے تھے۔دیگر بے حوالہ باتوں کو چھوڑتے ہوئے فلسطین سے متعلق صاحب مضمون کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔جیلانی صاحب کے بقول:

 چوہدری ظفراللہ خان صاحب اسرائیل نواز تھے۔

  یہودی خفیہ ایجنسی نے چوہدری صاحب کے دورہ فلسطین کا انتظام کیا تھا۔

  چوہدری صاحب اسرائیل کے قیام کے حامی تھے۔

  کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب سے ان کے بڑے گہرے تعلقات تھے اور اسرائیل انہیں اپنا قریبی اور بھروسے والا حمایتی تصو ر کرتا تھا۔

جس تحقیقی مضمون میں  برٹش لائبریری سے ریسرچ  کا تذکرہ ہو اور سند میں محض ’’کہا جاتا ہے‘‘ کے علاوہ کوئی قابل ذکر  حوالہ نہ ہو  اس مضمون کی ثقاہت پہ کیا تبصرہ کیا جائے۔۔مضمون نگار کو اپنی کہی ہوئی بات کے  تضاد کا بھی خیال نہیں رہا۔ایک ہی سانس میں یہ دعویٰ  کہ فلسطین کے لیے چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی گراں قدر خدمات کے عوض عرب دنیا  میں  انہیں بہت مقبولیت حاصل ہوگئی تھی اور چوہدری صاحب اسرائیل نواز تھے،ایک ’’محقق‘‘ ہی کو روا ہے۔

جیلانی صاحب کے بقول چوہدری صاحب نے اقوام متحدہ میں فلسطین کا کیس پاکستانی وزیرخارجہ کے حیثیت سے لڑا تھا اور  فلسطین کی حمایت کی تھی اور بعدازاں یہودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو لکھا کہ اب میری رائے تبدیل ہوگئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے جب فلسطین کا کیس لڑا  اس وقت ابھی ان کا تقرر بطور وزیر خارجہ کے نہیں ہوا تھا۔نیویارک سے واپسی پہ قائداعظم نے انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان سونپا تھا۔اقوام متحدہ میں چوہدری صاحب پاکستانی وفد کے نمائندے کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے اور جس طرح فلسطین کا کیس چوہدری صاحب نے لڑا اس کا اقرار تو خود صاحب مضمون کو بھی ہے۔چوہدری صاحب نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اقوام عالم کو عربوں سے کئے ہوئے وعدے یاد دلائے اور  وعدہ خلافی کی صورت  آئندہ کی ممکنہ صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔عرب نمائندے  لایعنی دلائل سے فلسطین کا کیس بگاڑتے رہے لیکن  چوہدری صاحب نے جس دلیری،دلائل اور منطق سے فلسطین کا کیس لڑا س پہ عرب نمائندگان کو بھی حیرت تھی۔چند دن قبل ہی اقوام متحدہ کا رکن بننے والے ملک کا نمائندہ اقوام عالم کو ان کی وعدہ خلافیوں پہ موردالزام ٹھہرا رہا تھا۔جیلانی صاحب سے گزارش ہے کہ آئندہ افسانہ لکھتے ہوئے بھی کم ازکم حقائق کو ایک دفعہ دیکھ لیا کیجیے۔اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ کا  قلمدان لیاقت علی خان صاحب کے پاس تھا۔انہوں نے اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی بات کی ہو تو اس پہ خامہ فرسائی کیجیے،چوہدری ظفراللہ خان صاحب بہرحال اس وقت وزیرخارجہ نہیں تھے۔چوہدری محمد علی  اپنی کتاب(Emergence of Pakistan) میں لکھتے ہیں:

’’مسلم دنیا کاکی آزادی،قوت،خوشحالی اور اتحاد کے لیے زبردست جدوجہد کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا  ایک مستقل مقصد رہا ہے۔حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ  مشرق وسطی کے ممالک میں  ایک خیرسگالی وفد بھجوایا گیا۔پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کو  اپنا مقصد قرار دیا اور اقوام متحد ہ میں اس نصب العین کی خاطر پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان سے بڑھ کر کوئی فصیح ترجمان نہیں تھا۔پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی پہ مستقل گامزن ہے۔‘‘

(Emergence of Pakistan p380)

جیلانی صاحب کے بقول 1945 میں  یہودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے چوہدری صاحب کے  دورہ فلسطین کا انتظام کیا تھا اور اس کے بعدان کی  رائے بدل گئی  اور اسرائیل کے قیام کے حامی ہوگئے۔حقیقت یہ ہے کہ چوہدری صاحب  نے لندن میں برطانوی حکومت  کے اہلکاروں سے ملاقاتوں میں انہیں اس امر کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی کہ فلسطین میں غیر عرب یہودی کثرت سے زمینیں خرید رہے ہیں،نہ صرف یہودی بلکہ عرب اراضیات بتدریج صیہونی ایجنسی کی ملکیت اور تصرف میں منتقل ہورہی ہیں،اس پہ پابندی لگائی جائے۔چوہدری صاحب نے وزیر ہند ’سر سموئیل ہورسے‘ سے اس معاملہ میں بات کی اور پھر وزیرنوآبادیات سے میٹنگ میں  انہیں ’’پنجاب  انتقال اراضی ایکٹ‘‘ کی مثال  دے کر سمجھایا کہ غیر ارب یہودیوں کو قانوناً فلسطین میں زمین کی خریداری سے روک دیا جائے ورنہ عربوں کی حالت دن بہ دن کمزور ہوتی جائے گی اور اس صورت حال کی ساری ذمہ داری حکومت برطانیہ پر ہوگی۔ایک طرف چوہدری صاحب ذاتی حیثیت میں فلسطینیوں کے حق میں وہاں کے وزرا ءسے ملاقاتیں کرکے انہیں یہودیوں کو ہتھکنڈوں سے باز رکھنے کی کوشش میں سرگرم عمل تھے،لیکن جیلانی صاحب جیسے ’’محققین‘‘ کے نزدیک چوہدری صاحب اسرائیل کے قیام کے حامی تھے۔لندن سے واپسی پہ چوہدری صاحب  قاہرہ،بیروت،دمشق،حیفہ اور کبابیر سے ہوتے ہوئے یروشلم گئے اور یہ سفر انہوں نے   بعض عرب دوستوں کی معیت میں ہی کیا۔یہ سفر جیلانی صاحب جسے چھ روزہ قرار دینے پہ مصر ہیں تین روزہ تھا۔اس دورہ کے اختتام پہ  چوہدری صاحب فکرمند اور اداس تھے۔اس سفر کا احوال چوہدری صاحب نے اپنی خود نوشت ’’تحدیث نعمت‘‘ میں  درج کیا ہے  جو بہت فکر انگیز اور عبرت آموز ہے۔مقامی عرب مسلمان بھی دھڑا دھڑ اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کر رہے تھے۔مشاہیر اسلام نے انہیں اس عمل پہ بھی خبردار بھی کیا تھا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا،لیکن یہ سلسلہ چلتا رہا اور بالآخر امریکہ کی مداخلت اور برطانیہ کی وعدہ خلافی کی وجہ سے اسرائیل  کے قیام  کی راہ ہموار ہوگئی۔چوہدری صاحب کا یہ دورہ 1945 میں ہوا تھا۔اگر اس دورہ کے بعد جیلانی صاحب کے بقول  چوہدری صاحب کی رائے بدل گئی تھی تو پھر اس دورہ کے دو برس بعد چوہدری صاحب نے کیوں فلسطین کی بھرپور حمایت کی اور قیام اسرائیل کی شدید مخالفت کی؟۔۔جس دورہ کے بعد رائے بدلنے  کی بات ہورہی ہے اس  دورہ کے بعد ہی تو اصل میں چوہدری صاحب نے فلسطین کا کیس لڑا تھا اور عرب دنیا کے ہیرو بنے تھے۔رائے تبدیل ہوتی تو معاملہ الٹ ہونا چاہیے  تھا۔

جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے تو یہ حکومت پاکستان کا معاملہ تھا اور وہی اس پہ کوئی فیصلہ کرسکتی تھی۔کسی بھی ملک کا وزیر خارجہ کسی دوسرے ملک کو تسلیم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا،اس میں پوری ریاست شامل ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ 1948 میں اسرائیل کے ہونے والے صدر’’وائزمین‘‘ نے رابطہ کیا تھا اور باہم مل کر پیش آمدہ مسائل سے نبٹنے کی تجویز پیش کی تھی  لیکن یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کو اس وقت ایران اور ترکی جیسے ممالک نے تسلیم کیا ہوا تھا بلکہ ترکی اور مصر وغیرہ تو آج بھی اسرائیل کو تسلیم کیے ہوئے ہیں۔جب خود مسلمان ممالک ہی اسرائیل کو تسلیم کر رہے تھے تو چوہدری ظفراللہ خان  جنہوں نے فلسطین کے کیس میں نئی روح پھونک دی تھی کو صیہونیت کا طعنہ دینا غلط ہے۔

سرظفراللہ خان کی فلسطین کے حق میں کوششیں اور کاوشیں مخالفین کو بھی  تسلیم ہیں۔ اقوام عالم کی  منافقت اور وعدہ خلافیوں کی وجہ سے جب اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آگیا  اور امریکہ جیسا ملک اس کی پشت پناہی میں مصروف تھا تب بھی مسلمانوں کو چوہدری ظفراللہ خان کی رہنمائی میسر تھی۔اسی باعث چوہدری ظفراللہ خان نے اقوام متحدہ سے  واپسی کے سفر میں شامی وفد کے سربراہ کی درخواست پہ دمشق میں تین دن قیام کیا تاکہ  عرب  حکومتوں کے نمائندوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا جاسکے۔ان نمائندوں کی طرف سے اسرائیل سے جنگ کرنے کے سوال پہ  چوہدری صاحب نےانہیں اس طرف توجہ دلائی کہ اسرائیل کے لیے سمندر کھلا ہوگا اور امریکہ کا مالدار یہودی طبقہ اسرائیل کی ہر ممکنہ امداد کرے گا اور اسرائیل کی جنگی تیاری آپ کے اندازوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ چوہدری صاحب کی رائے کس قدر حقیقت پسندانہ اور سچی تھی۔عرب ممالک نے  متعدد دفعہ اسرائیل سے جنگ کی اور ہر دفعہ  نقصان اٹھایا۔

کیا صیہونیت کے ایجنٹ ایسے ہوتے ہیں جو پہلے اقوام متحدہ میں ان کے خلاف کیس لڑیں اور پھر ان کی جنگی تیاریوں سے ان کے دشمنوں کو آگاہ کریں؟جیلانی صاحب!حقیقت یہ ہے کہ آپ نے محض سنی سنائی پہ بھروسا کرتے ہوئے چوہدری صاحب   پہ الزام لگایا ہے۔اگر تھوڑی سی کشٹ اٹھا کے اس وقت کےاخبارات  ہی برٹش لائبریری سے نکال کر دیکھ لیتے تو آپ کو حقیقت حال معلوم ہوجاتی۔اقوام متحدہ میں چوہدری صاحب نے اپنی تقریر ان  الفاظ میں ختم کی

I beg you. I implore you. Entreat you not to destroy your credit in Arab countries. Tomorrow you may need their friendship but you will never get it.

Advertisements
julia rana solicitors

مغربی طاقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر فلسطین کا کیس لڑنے والا آج جیلانی صاحب کے نزدیک صیہونی ہے ۔مقامِ حیرت ہے۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply