• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

ارشادباری تعالیٰ ہے۔”یہ نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم مسلمانوں کے ان کی جان سے زیادہ مالک ہیں  اوران  کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں۔اوررشتہ والے اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں یہ نسبت مسلمانوں اورمہاجروں کے مگریہ کہ تم اپنے دوستوں پراحسان کرویہ کتاب میں لکھاہے۔(پارہ ۲۲سورۃ الاحزاب آیت۶)اولیٰ کے معنی زیادہ مالک،زیادہ قریب اورزیادہ حقدارکے ہیں یہاں تینوں معنی درست ہیں معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہرمومن کے دل میں حاضروناظرہیں اورحضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاحکم ہرمومن پربادشاہ،ماں باپ سے زیادہ نافذہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہمارے سب سے زیادہ مالک ہیں۔

سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم تم کوتمہاری جانوں سے زیادہ راحت پہچانے والے ہیں دنیاوآخرت میں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ نبی ہمارے بھائی نہیں کیونکہ بھائی کی بیوی بھاوج ہوتی ہے ماں نہیں ہوتی۔اللہ رب العزت نے یہ اعلان فرمادیاکہ اے مسلمانو!نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں۔آج ہم ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاذکرخیرکرتے ہیں۔

ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پرایمان لائیں اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوآقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی پہلی بیوی ہونے کی بھی سعادت حاصل ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ولادت باسعادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ہوئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش خاندان کی باوقاراورممتازخاتون تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت “ام ہند” ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حسن سیرت،اعلیٰ اخلاق،بلندکردار،عزت وعصمت کی مالک اورشرافت ومرتبہ کی وجہ سے مکۃ المکرمہ اوراردگردکے علاقوں میں ”طاہرہ“کے خوبصورت اورپاکیزہ لقب سے مشہورہوئیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاایسی تمام برائیوں سے پاک تھیں جوعرب میں پھیلی ہوئی تھیں۔

سیرت تیمی میں ہے کہ حضرت سیدتناخدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کالقب “سیدہ نساء قریش “تھا۔(شرح سیرت ابن ہشام)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانسب سرکارِمدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے نسب شریف سے ”قصی“ سے مل جاتاہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانسب یہ ہے۔حضرت خدیجہ بنت خویلدبن اسدبن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہرآپؓ کی والدہ کانام فاطمہ بنت زائدہ بن العصم بن رواحہ بن حجربن عبدبن معیص بن عامربن لؤی بن غالب بن فہر(شرح سیرت ابن ہشام،مدارج النبوۃ)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاقریش مکہ کی عورتوں میں سب سے زیادہ مالداراورباثروت خاتون تھیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والداورشوہرکے انتقال کے بعدوہ مال جووالداور شوہر چھوڑگئے تھے اس کی مالک ہونے کے باعث آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اس مال کونہایت سلیقے سے کام میں لگایا۔مکہ معظمہ میں امت کے غمخوار،مدینے کے تاجدار،سرکارِابدقرارصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سچائی کاچرچا عام تھا۔ہرشخص آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو”صادق“اور”امین“کے لقب سے یادکرتاتھا۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوجب آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ”صادق“اور”امین“ ہونے کاپتاچلاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں پیغام بھیجاکہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میرامال ملک شام لے جائیں اوروہاں جاکرتجارت کریں۔

سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے یہ بات منظور کرلی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کامال جب تجارت کی غرض سے ملک شام لے گئے اس دفعہ تجارت میں بہت زیادہ منافع ہوا۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاغلام”میسرہ“ بھی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ہمراہ تھاوہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے تجارتی معاملات اورصداقت ودیانت سے بہت متاثرہوا۔”میسرہ“نے واپسی پرحضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بہت تعریف کی۔

غریب پروری اورسخاوت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی امتیازی خصوصیات تھیں۔آقائے دوجہاں سرورکون مکاں صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی صداقت،شرافت وامانتداری سے مرعوب ہوکراپنی سہیلی”نفیسہ“کوبھیج کرنکاح کی خواہش کی اوراپنے چچاعمروبن اسدکوبلایا۔سرکارِابدقرارصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے نکاح کی خواہش قبول کی۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب نے نکاح پڑھایا۔پانچ سودرہم مہرمقررہوا(ایک روایت کے مطابق مہرساڑھے بارہ اوقیہ سوناتھا)۔(مدارج النبوۃ،ج۲) شادی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی عمرمبارک25سال اورحضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر40سال تھی۔(طبقات ابن سعد)جب تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحیات رہیں آپ کی موجودگی میں پیارے آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا(مسلم شریف)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مہرووفاکاپیکرعظیم تھیں۔اپنی رفاقت میں ایک گھڑی بھی سرکارعلیہ الصلوٰۃ والسّلام کوناراض نہ ہونے دیا۔سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی نبوت پرایمان لائیں۔حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاارشادِگرامی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہامجھ پراسوقت ایمان لائیں جب کہ لوگ میری تکذیب کرتے تھے۔اورانہوں نے اپنے مال سے میری ایسے وقت مددکی جب کہ لوگوں نے مجھے محروم کررکھاتھا۔(مسنداحمدبن حنبل)

سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے فرمایا”اللہ کی قسم!خدیجہ سے بہترمجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفرکیااسو قت وہ مجھ پرایمان لائیں اورجب سب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے۔اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اورجس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیزدینے کے لئے تیارنہ تھااسوقت خدیجہ نے مجھے اپناساراسامان دے دیااورانہی  کے شکم سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اولادعطافرمائی۔(مواہب الدنیہ،الاستعیاب)

سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی تمام اولادسیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بطن سے ہوئی بجزحضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جوسیدہ ماریہ قطبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیداہوئے۔فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں۔جبکہ دختران میں سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا،سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا،حضرت فاطمۃ الزہراسلام اللہ علہیاہیں۔(سیرۃ النبویہ،اسدالغابہ) ابتدائے اسلام میں جبکہ ہرطرف مخالفین نے مشکلات کے پہاڑے کھڑے کیے ہوئے تھے نہ صرف خودایمان وعمل صالح پرثابت قدم رہیں بلکہ نہایت جانثاری سے حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی دلجوئی اورتسکین قلب کاسامان کرتی رہیں۔(زرقانی،الاستعیاب)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام کی دعوت وتبلیغ میں بے حدمددگارثابت ہوئیں اپنی تمام دولت سرکارعلیہ الصلوٰۃ والسّلام پرقربان کردی۔سیدناجبرائیل امین علیہ السلام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے نام رب العالمین کاسلام وبشارتیں لے کرآیاکرتے تھے۔(مسلم شریف،سیرت ابن ہشام،مسنداحمد) سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شادی کے پندرہ سال بعدجب حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پرپہلی وحی نازل ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بہت گھبرائے اورگھرتشریف لے آئے۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوبہت تسلی دی اورآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کواپنے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوتسلی دی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوحضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے بے حدمحبت تھی۔گھرمیں باندیاں اورغلام ہونے کے باوجودوہ خوداپنے ہاتھوں سے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاکام کرناباعث فخرسمجھتی تھیں اورہربات میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی مرضی کومقدم سمجھتی تھیں

کفارمکہ نے جب اسلام کازوردن بدن بڑھتادیکھااوراپناہرحربہ اورتدبیرناکام دیکھی توسن 7نبوی میں قریش نے سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اوران کے خاندان کے خلاف ایک دستاویزتیارکرکے خانہ کعبہ میں لٹکادی قریش کاکہناتھاکہ جب تک بنی ہاشم اوربنی مطلب کے لوگ حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو (معاذاللہ)قتل کرنے کے لئے ہمارے حوالے نہیں کردیتے ان سے ہرطرح کامعاشرتی تعلق اوربول چال بندرکھی جائے۔اس بائیکاٹ کی وجہ سے بنوہاشم خودایک گھاٹی میں منتقل ہوگئے۔حضرت ابوطالب نے حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اوراپنے خاندان کے ہمراہ گھاٹی میں پناہ لی۔ وہ گھاٹی ”شُعب ابی طالب“کہلاتی ہے۔

حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہاامیری اورخوشحالی کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ گھاٹی میں رہیں تین سال اس تکلیف بھوک اورپیاس کاسامناکرتے ہوئے گزرگئے کبھی کبھی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اثرورسوخ کے سبب کھاناپہنچ جاتاآخرتین سال بعدگھاٹی ”شُعب ابی طالب“سے رہائی ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم مع خاندان کے اپنے گھرآئے۔

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سچی مشیرکارتھیں۔نبوت ملنے سے پہلے اورنبوت کے ابتدائی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم غارِحرامیں جاکرکئی کئی روزاللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔یہ راستہ بڑاناہموارتھااس پرچلنابھی مشکل ہوتاتھا۔اس کے باوجودبھی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے لئے کھانا،ستو،کھجوریں اورپانی وغیرہ لے کرجاتیں اورغارمیں پہنچاتیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھانالے کرجارہی تھیں کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کی۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پاس حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہادسترخوان لارہی ہیں جس میں کھاناپانی ہے جب وہ آئیں توان سے ان کے رب کاسلام فرمانا اورمیری طرف سے بھی انہیں بشارت دیجئے کہ ان کے لئے جنت میں موتیوں کاایک ایساگھرہے جس میں نہ شوروغل ہوگااورنہ رنج ومشقت(بخاری ومسلم)

حضرت سیدناابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا۔جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ تعالیٰ عنہا،سیدہ فاطمۃ الزہراسلام اللہ علہیا بنت محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہااورآسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہاامراۂ فرعون ہیں۔ (مسنداحمدبن حنبل)ام المومنین حضرت عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم،ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کابہت ذکرکرتے تھے بعض اوقات سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بکری ذبح فرماتے پھراسکے اعضاء کے ٹکڑے کرتے پھروہ جناب خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی سہیلیوں میں بھیج دیتے تھے۔صرف اس لئے بھیجتے کہ وہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی سہیلیاں تھیں۔(مسلم شریف)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کتب احادیث،کتب سیرت میں بہت سارے فضائل کاذکرہے۔اس مضمون میں چندفضائل ذکرکرکے اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ بنایاہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صحت شعب ابی طالب میں بہت متاثرہوئی جب واپس گھرآئیں تو شدیدبیمارہوگئیں آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کے علاج خبرگیری اوردلجوئی میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پچیس سال حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شریک حیات رہیں۔25سال سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی رفاقت میں گزارکر بعثت کے دسویں سال 10رمضان المبارک کو۴۶سال ۶ماہ کی عمرمیں مکۃ المکرمہ میں وصال ہوااورمقبرہ ”حجون“ میں مدفون ہیں۔”حجون“ مکہ معظمہ کے بلندمقام پرہے۔ یہاں پراہل مکہ کاقبرستان ہے اسے”جنت المعلٰی“ بھی کہتے ہیں۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم خودآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبرمیں داخل ہوئے اوردعائے خیرفرماکرسپردِخاک کیا۔چونکہ نمازجنازہ اس وقت مشروع نہ ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سانحہ پرسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بہت زیادہ ملول ومخزون ہوئے۔(مدارج النبوۃ) آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اپنے چچاابوطالب کی وفات کے بعدرفیقہ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کی وجہ سے غمگین رہنے لگے اورآقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اس سال کوعام الحزن “غم کاسال”قراردیا۔اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہو۔ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اللہ پاک ہم کوصراطِ مستقیم کے راستے پرچلنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply