دشمنوں کے درمیان ایک کتاب۔۔۔ عارف انیس

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ کی مشترکہ کتاب ‘دا سپائی کرانیکلز’ کے ٹوٹے!

‘ہم دونوں ایک صفحے پر تو ہیں، پر ہماری کتابیں الگ الگ ہیں’، لمبے قد کے امرجیت سنگھ دلت نے دائیں آنکھ میچتے ہوئے پنجابی زبان میں جملہ کسا تھا. ہم اگست 2017 میں لندن سکول آف اکنامکس میں مایہ ناز صحافی عامر غوری کے تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا فیوچر فورم کے پلیٹ فارم پر را اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی پہلی پبلک ملاقات کے بعد گفتگو کر رہے تھے. تھوڑی دیر قبل میرے سامنے، را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان الحق، دونوں مہا دشمنوں نے ایک دوسرے کو ہنستے ہوئے گلے سے لگایا تھا. اور اس سے پہلے ایک سوال کے جواب میں دلت سنگھ یہ کھڑکی توڑ انکشاف کرچکے تھے کہ 2006 میں پاکستانی صدر پرویز مشرف کی زندگی را نے بچائی  تھی جب ان پر قاتلانہ حملے کا انکشاف آئی ایس آئی کو کیا گیا تھا اور یوں دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی بار دونوں دشمن جاسوس ایجنسیاں مل کر کام کر رہی تھیں. میرے لیے یہ انکشاف پیٹ میں لات مارنے کے مترادف تھا اور میں دلت سنگھ سے یہی بات کررہا تھا کہ اس بریکنگ نیوز پر تو ہالی ووڈ میں ایک تہلکہ خیز فلم بنائی جا سکتی ہے. میرا سوال یہ تھا کہ کس معاملے پر پرویز مشرف اور بھارت ایک صفحے پر تھے تو دلت نے ترنت جواب دیا تھا کہ صفحہ شاید ایک تھا مگر کتابیں الگ الگ تھیں اور ابلاغ کی زبان میں شاید اس کا مطلب یہ تھا کہ ‘نیم صحافی پپو، یار، جاسوسوں کے بادشاہ کو مزید تنگ مت کرو’.

میں نے تب پہلی بار سوچا تھا، کیا کمال ہوجائے اگر یہ دونوں جاسوس بادشاہ مل کر ایک کتاب میں اکٹھے ہوجائیں اور غیر روایتی انداز میں گپ شپ کرلیں تاکہ ان دونوں کی جذبات میں تپتی ہوئی قوموں کو چیزوں کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ مل جائے. پچھلے دو ہفتوں سے ابلاغ کی انگوروں کی بیل پر خبریں چلنے لگ گئیں کہ یہ کام ہو چکا ہے، امرجیت سنگھ دلت تو وہی رہے، تاہم معاون اداکاراپنے جنرل اسد درانی نکلے. ویسے بھی جنرل احسان الحق سے اتنی فرینک گپ شپ نہیں کی جا سکتی کہ اسد درانی ذرا وکھری ٹائپ کے جاسوس بادشاہ رہے ہیں. حال ہی میں بالآخر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف امرجیت سنگھ دلت اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درانی کہ مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب ‘ دا سپائی کرانیکلز’ شائع ہو گئی ۔ اس کتاب کا خیال دونوں جاسوس بادشاہوں کو 2016 میں استبول ، بنکاک اور کھٹمنڈو میں مختلف تھنک ٹینکس کی طرف سے ترتیب دی گئی ملاقاتوں کے دوران آیا اور پھر اس پر کام شروع کیا گیا ۔ یہ غالباً اپنی نوعیت  کی پہلی کتاب ہے جو دو متحارب خفیہ ایجنسیوں کےسابق سربراہوں نے مشترکہ طور پر لکھی ہے۔ معروف لکھاری اور مصنف ادتیا سنہا نے اس کتاب کے معاون مصنف یا وچولن ہیں مشہور طباعتی ادارے ہارپر کولنز کی شائع کردہ یہ کتاب 312 صفحات اور آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ۔

سپائی کرانیکلز کئی  اعتبار سے بارودی مواد سے بھرپور کتاب ہے. سچ کہا جائے تو شاید پروفیشنل جاسوسی کے اعتبار سے اس میں کوئی خبر نہیں ہے. جاسوس ایجنسیاں یہی کچھ کرتی ہیں، کچھ ٹھنڈے کمروں میں دروازوں کے پیچھے کچھ لوگ قومی مفاد کا تعین کرتے ہیں، ایک بیانیہ تشکیل دیتے ہیں، پھر اس بیانیے کو مذہب، ملک، روایت کے ساتھ چھاجوں ڈالرز اور پاؤنڈز کے دیسی گھی  کا گہرا تڑکہ لگایا جاتا ہے اور پبلک کو بیچ دیا جاتا ہے، اسی دوران لوگ بکتے ہیں، خریدوفروخت ہوتی ہے، بم پھٹتے ہیں، لاشیں اٹھتی ہیں، گھاتیں لگتی ہیں اور ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے. یہ سب ایک گیم کی طرح کھیلا جاتا ہے، ہاں کچھ لوگ اس میں ضرورت سے زیادہ انوالو ہوجاتے ہیں.
پبلک کے اعتبار سے سپائی  کرونیکلز میں کھڑکی توڑ خبریں ہیں اور ان پر اگلے چند دنوں میں خوب گرد اڑتی رہے گی تو ہم اسی حوالے سے کتاب کا جائزہ لیتے ہیں.

خبر بنتی ہے جب دونوں جاسوس بادشاہ ایک دوسرے کو بھائی کہتے ہیں. اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015ء میں جنرل درانی کے بیٹے عثمان درانی جرمن کمپنی کے کام کے سلسلے میں بھارتی شہر کوچے پہنچے۔ ویزا قوانین کے اعتبار سے عثمان درانی جس شہر سے داخل ہوئے تھے انہیں وہیں سے واپس جانا تھا.لیکن اس کپمنی نے ممبئی سے عثمان درانی کی فلائٹ کی بکنگ کی۔ عثمان درانی کو ممبئی میں حکام نے روکا۔اور اس کے بعد 24 گھنٹوں تک انہیں ویزا کی خلاف ورزی کے باوجود بھارت سے باہر نکالنے کے راستے تلاش کیے جاتے رہے۔ جنرل درانی نے بتایا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اب کیا ہو گا،لیکن اس کے باوجود ممبئی اسپیشل برانچ کے لوگوں نے عثمان سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے پاس ممبئی کا ویزا نہیں ہے، تم یہاں کیا کر رہے ہو، پکڑو ، اندر کرو اسے۔ ایسا ہو سکتا تھا لیکن نہیں ہوا۔جنرل درانی نے بتایاکہ اس تمام عرصے کےدوران میں اور میری بیوی کی جان پر بنی رہی کہ اگر کسی نے یہ بات ظاہر کر دی کہ سابق آئی ایس آئی چیف کا بیٹا ممبئی میں گھوم رہا ہے۔جب جنرل درانی کو عثمان کی گرفتاری کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے ساتھی کھلاڑی امرجیت سنگھ دلت دولت سے رابطہ کیا ۔جنھوں نے تب کے را چیف راجیندر کھنّہ سمیت کئی لوگوں سے رابطہ کیا جس کے ایک دن بعد عثمان درانی کو واپس جرمنی جانے دیا گیا۔ دولت کا کہنا تھا کہ سب سے اہم موقع وہ تھا جب میں نے کھنّہ سے رابطہ کرکے ان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے درانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہمارا فرض تھا کیونکہ آخر کار جنرل درانی بھی ہمارے ساتھی ہی ہیں۔ شاید اس ٹکڑے پر بہت شور مچے، لیکن پروفیشنل کرٹسی کے اعتبار سے اسے اعلیٰ درجے کی اخلاقیات ہی کہا جاسکتا ہے.

خبر بنتی ہے جب جنرل درانی نے بتایا کہ سروس کے دنوں میں پاکستان میں ایک ہائی پروفائل ڈنر ہوا جہاں شراب وکباب کا اہتمام تھا. تاہم انہیں وہاں دیکھ کر کچھ لوگوں کو تھرتھراہٹ شروع ہوگئی کہ وہاں آئی ایس آئی کا سربراہ موجود ہے جب کہ مہمانوں میں کئی  جرنیل حضرات شامل تھے جن کی گھبراہٹ کو رفع دفع کیا گیا. اس ضمن میں جنرل درانی کا سب سے کارآمد جملہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق ایسے ہی (شرابی، کبابی) لوگوں میں گھرے رہتے تھے. یہ جملہ ضیاء الحقی اسلامی انقلاب کی بہت سی پرتوں کو کھولتا ہے.

خبر بنتی ہے جب آئی ایس آئی کا سابقہ سربراہ اعتراف کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس پاکستانی ٹیم تھی جسے بھارت کو زچ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا. جنرل درانی نے کہا کہ حریت کانفرنس کو اس لیے پیدا کیا گیا تاکہ کشمیری ناراضگی کو سیاسی طاقت میں بدلا جاسکے. تاہم جنرل نے اس امر پر مایوسی کا اظہار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے مطالبے کا جن بوتل سے باہر نکل آیا تھا اور ایک وقت آیا جب حریت کے خالق اپنی مخلوق پر مزید قابو نہیں رکھ سکے اور ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی معاملات اتنے  گڑبڑ ہوگئے کہ بہت سے لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کوئی بھی فل سکیل جنگ نہیں چاہتا تھا. جنرل درانی اپنی گفتگو میں حریت کے ہینڈل پر اپنی گرفت کھونے کو آئی ایس آئی کی سب سے بڑی ناکامی گردانتے ہیں. انہوں نے تھرڈ آپشن کے خالق امان اللہ گلگتی پر بھی اپنی گرفت نہ ہونے کا اعتراف کیا، جس نے بعد میں بھاری نقصان پہنچایا. کتاب میں را چیف امرجیت نے اعتراف کیا کہ کشمیر میں بھارتی سیاسی ناکامیوں نے آج پھر وہ دن دکھا دیا ہے کہ پاکستان پھر سے انوالو ہوگیا ہے. ‘حریت پاکستانی ٹیم ہے، انڈیا کے پاس اپنی ٹیم ہے اور بےچارے کشمیری درمیان میں ہیں.’

خبر اس وقت زیادہ بنتی ہے جب جنرل درانی، آئی ایس آئی کے ایک اور سربراہ جنرل کیانی کے حوالے سے کچھ شکوک کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید امریکیوں سے اسامہ بن لادن کے حوالے سے وہ کسی ڈیل میں شامل ہیں. ‘کیانی نیشنل ڈیفنس کورس میں میرا فیورٹ سٹوڈنٹ تھا، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ میرے سامنے آنے سے کتراتا رہا ہے کہ شاید میں اس سے پوچھ نہ بیٹھوں کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا سودا کتنے ارب ڈالرز میں طے ہوا ہے. جس دن مجھے یقین ہوگیا میں خود کیانی کے خلاف مہم چلاؤں گا، جس کو میں پاکستانی فوج کے پرمغز سربراہان میں سے ایک سمجھتا ہوں. ‘کتاب میں اس امر پر بحث مباحثہ کیا گیا کہ اسامہ بن لادن کی موت سے چند دن پہلے ان کی ایک ائیر بیس پر افغانستان میں امریکی فوج کے جنرل ڈیوڈ پٹریاس سے ملاقات ہوئی تھی. جنرل درانی نے ایک اور تہلکہ خیز انکشاف یہ بھی کیا کہ ڈاکٹر شکیل درانی کا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں ہے، بلکہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ایک آفیسر پہلے ہی سی آئی اے کو اس حوالے سے خبردار کرچکا تھا اور شاید اس مخبری کے عوض پچیس ملین ڈالرز بھی بوریوں میں بھر چکا ہے اور آج کل امریکہ خفیہ اداروں میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے. سیمورہرش نے اپنی کہانی میں اسی مرکزی کردار کا ذکر کیا تھا. نام جنرل درانی یہ کہہ  کر گول کرگئے  کہ وہ خوامخواہ اسے مشہور نہیں کرنا چاہتے.

بڑی خبر اس وقت بنتی ہے جب جنرل اسد درانی اپنے ادارے کی سب سے بڑی ٹرافی کلبھوشن یادیو کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہیں   کہ یادیو کو بھارت کو واپس کردیا جائے گا. ‘ہم (پاکستانیوں) نے اس معاملے کو صحیح طور   پر ہینڈل نہیں کیا. اصل چیز را پر یہ ثابت کرنا تھا کہ ہم ان کو کہاں پکڑ سکتے ہیں (اور ان کی ناک رگڑ سکتے ہیں). اس سے اگلے مراحل اور کلبھوشن کو لٹکائے جانے کے مراحل کو وہ تضیع اوقات خیال کرتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

سپائی کرانیکلز پر پاکستان بھارت دونوں میں خوب شور شرابا مچنے کا امکان ہے اور دونوں ‘اہل کتاب’ سابق سربراہان کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا . تاہم یہ کتاب شطرنج کے دونوں اطراف میں بیٹھے دشمن اسٹیبلشمنٹ اور دشمنی کی انڈسٹری کے شہ دماغوں کے اندر جھانکنے کی کامیاب کوشش ہے اور شاید دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا کوئی دروازہ بھی کھول سکے. تاہم خفیہ ملکی رازوں کے افشاء  ہونے کے حوالے سے جو سیاست دان زیر عتاب ہیں وہ کتاب پڑھتے ہوئے یہ شعر گنگنا سکتے ہیں :
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply