• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مہنگائی کا عذاب اس لیے کہ حکومت چوروں سے مل گئی ہے۔۔۔سید عارف مصطفٰی

مہنگائی کا عذاب اس لیے کہ حکومت چوروں سے مل گئی ہے۔۔۔سید عارف مصطفٰی

 اس بار رمضان میں پھر وہی ہوا ہے کہ پھلوں کے تاجر ہلاکو خان بن گئے ہیں اور مارکیٹ کو بغداد سمجھ کے تاتاریوں کا یہ لشکر بےیارو مددگار صارفین کی جیبوں پہ ٹوٹ پڑا ہے ۔۔۔۔ اس برس تو عجب مایوسی کا عالم ہے کیونکہ ہماری صحافی بہن و انتھک سوشل ورکر بہن حسن آرا ء تو خاک کی چار اوڑھے لیٹی ہیں اور باقی سارے مہماتی جنات روپوش ہیں ۔۔ نجانے کہاں غائب ہیں اور کس کونے میں منہ چھپائے پڑے ہیں ۔۔۔۔

یادش بخیر پچھلے برس سوشل میڈیا پہ مہنگے پھلوں کے بائیکاٹ کی ایک مہم چلی تھی جس کی بانی ہماری یہی مرحوم صحافی ساتھی محترمہ حسن آراء تھیں ۔۔۔ پھر اس مہم سے پبلسٹی سمیٹنے کی زبردست دوڑ شروع ہوئی اور اس کاز کو نورالہدیٰ شاہین نامی ایک صاحب لے اڑے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ایک کالم نگار سلیم فاروقی  صاحب نے تو لپاک جھپاک ایک تنظیم ایوان وفاق الصارفین بنا ڈالی تھی ( جو کہ بعد از ولادت ہی مفرور بلکہ ناپید ہوگئی ) کہ جس کی کسی سرگرمی کی کوئی خبر کبھی نہ مل سکی – گو بائیکاٹ کی اس مہم سے شہر میں پھلوں کی قیمتوں میں کوئی خاص کمی تو رونماء نہیں ہوئی تھی لیکن اس نے معاشرتی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور اگر قیمتوں میں کمی نہیں ہوسکی تھی تو کم ازکم پر لگا کے اڑتے نرخوں کو یکدم بریک ضرور لگ گیا تھا اور قیمتوں کے تعین کے سلسلے میں مصنوعی گرانی کے بجائے طلب و رسد کا خودکار مارکیٹ میکنزم جلد ہی بحال ہوگیا تھا –

لیکن پھلوں کی گرانی تو اس بڑی لوٹ مار کا ایک سطحی سا حصہ ہے اصل لوٹ مار تو وہ ہے کہ جو غلے اور غذائی  اجناس کی مد میں ہے اور یہ لٹیرا گردی بڑے تاجر نہیں بلکہ خوردہ فروش مچاتے ہیں اور جو سارا سال بڑے اطمینان سے جاری رہتی ہے ۔ میں جب کبھی کراچی کی مرکزی غلہ مارکیٹ جوڑیا بازار کا رخ کرتا ہوں تو وہاں اکثر دالیں اورغذائی اجناس کی قیمتیں محلے کے خوردہ فروشوں  سے بہت کم پاتا ہوں مثلاً  ابھی 3 دن قبل ہی کی بات ہے کہ جب رمضان شروع ہونے سے ایک روز پہلےیعنی بدھ 16 مئی کو جوڑیا بازارگیا تو وہاں اچھا والا بیسن 100روپے فی کلو دستیاب تھا جبکہ ہمارے علاقے کی پرچون کی دکانوں پہ بیسن 50 تا 60 روپے پاؤ یعنی 200 سے 240 روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے جبکہ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ   چنے کا بیسن ہے یا خشک پیلے مٹر کا جو کہ وہاں درجہ دوم کا کہلاتا ہے اور 80 روپے کلو میں دستیاب ہے اسی طرح میں نے وہاں سے سفید کابلی چنا اور ماش کی دال بھی 100 – 100 روپے کلو ہی میں خریدی۔۔

اس ذاتی تجربے کی روشنی میں مجھے یہ کہنے میں کوئی آر  نہیں کہ ہم بیچارے صارفین لٹتے تو سارا ہی سال ہیں لیکن آہ و بکا کی توفیق رمضان ہی میں جاکے نصیب ہوتی ہے ۔یہاں پہ افسوسناک بات بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ضلعی ڈپٹی کمشنروں یعنی حکومت کا کردار اس ضمن میں اس تھانے کے ایس ایچ او کی مانند ہوتا ہے کہ جو لاہور کے بازار حسن المعروف ہیرامنڈی میں قائم ہے اور ٹبی تھانہ کہلاتا ہے اور جس کے سرکاری رجسٹروں کے مطابق اس علاقے میں جسم فروشی کی لعنت کبھی کی ختم کی جاچکی ہے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply