ڈان لیکس معاملے کا بخیر اختتام؟

ڈان لیکس معاملے کا بخیر اختتام؟
طاہر یاسین طاہر
آخر کار حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان 8 ماہ قبل ڈان کی ایک خبر پر شروع ہونے والا معاملہ بظاہر اپنے خوشگوار اختتام کو پہنچ گیا۔قبل ازیں پاک فوج نے اس حوالے سے سخت موقف اپنایا ہوا تھا اور اس خبر کو لیک کرنے کے حکومتی ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس خبر کو فیڈ کرنے میں وزیر اعظم صاحب کی صاحبزادی اور وزیر اطلاعات پرویز رشید پیش پیش تھے،مگر بوجہ وزیر اعظم کے خاندان کو طاقت کے حلقوں سے رعایت ملی اور اس خبر، کہ جس سے فوج کی شہرت اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچا،کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے کمیٹی بنا دی گئی۔اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو حسب عادت و حسب سابق وزیر داخلہ صاحب نے چند دنوں تک آنے کا کہا تھا مگر بوجہ تحقیقات کا یہ عمل طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔اس دوران میں وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب کو ان کے عہدے سے الگ کر دیا گیا تھا۔
قبل ازیں ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے معاملے میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان کے خلاف بھی ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیاتھا۔وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی جبکہ ان ہی کی روشنی میں یہ اقدامات اٹھائے گئے۔یاد رہے کہ پاک فوج نے ڈان کی خبر کے معاملے پر حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیاتھا۔ اس کے بعد یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم ہاوس اور پاک فوج آمنے سامنے آ گئے ہیں اور اس کا انجام جمہوریت کی بساط لپیٹنے پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔کیونکہ پاک فوج کی جانب سے ڈان لیکس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اعلامیے کو جن الفاظ میں مسترد کیا گیا تھا وہ نہایت سخت تھے۔مگر پھر دونوں جانب کے فہیم افراد نے معاملے کو بڑے احسن طریقے سے حل کر لیا ہے۔
قبل ازیں وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی طارق فاطمی نے اپنے الوداعی خط میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کے بعد کہا تھا کہ یہ الزامات ایک ایسے شخص کے لیے تکلیف کا باعث ہیں جو پانچ دھائیوں سے پاکستان کی خدمت کر رہا ہو۔طارق فاطمی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان سالوں میں مجھے قومی سلامتی کے معاملات سے جڑے کئی حساس معاملات کو بھی دیکھنا پڑا،جن میں سے کچھ اہم معاملات سے آگاہی بھی شامل تھی۔اسی طرح ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ راو تحسین نے بھی اپنی برطرفی پرحیرت اور نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
اب آخر کار پاک فوج نے ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر سے متعلق حکومتی احکامات کو ’مسترد‘ کیے جانے کے حوالے سے کی جانے والی ٹوئیٹ واپس لے لی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’29 اپریل کا ٹوئیٹ غیر موثر ہوگیا ہے، فوج جمہوری عمل کی حمایت اور آئینی بالادستی کےعزم کا اعادہ کرتی ہے‘۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ ’29 اپریل کا ٹوئیٹ کسی ادارے یا شخصیت کے خلاف نہیں تھا‘۔پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈان کی خبر کے حوالے سے قائم کی جانے والی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے پیرا 18 میں کی جانے والی سفارشات کی وزیراعظم نے باضابطہ طور پر منظوری دی پھر اس کا نفاذ ہوا جس کے بعد ڈان کی خبر کا معاملہ نمٹ گیا۔پاک فوج کی جانب سے ٹوئیٹ سے دستبرداری سے کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے ملاقات کی تھی۔آئی ایس پی آر کی جانب سے 29 اپریل کو کی جانے والی ٹوئیٹ واپس لیے جانے کے بعد وزارت داخلہ نے بھی ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ چونکہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد ہوگیا لہٰذا ڈان کی خبر کا معاملہ طے پاگیا ہے۔اعلامیے کے مطابق انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی وزیراعظم کی جانب سے منظوری کے بعد متعلقہ اداروں نے اس پر عمل درآمد کیا۔یہ بھی کہا گیا کہ تمام وزارتوں اور اداروں نے وزیراعظم کے احکامات پر عمل درآمد کیا جبکہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان نے معاملے کو پیشہ ورانہ طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔
اعلامیے کے مطابق راؤ تحسین کے خلاف ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن رولز 1973 کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی جبکہ انکوائری کمیٹی نے وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی سے قلمدان واپس لینے کی بھی سفارش کی۔وزارت داخلہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے خلاف کارروائی کی بھی کمیٹی نےتوثیق کی۔
یہ امر واقعی ہے کہ وزیر اطلاعات یا انفارمیشن سیکرٹری یا مشیر خاص یا کسی بھی حکومتی اہلکار و عہدیدار کی یہ ذ مہ داری نہیں ہوتی کہ وہ خبریں رکوائے یا اس حوالے سے اخبارات کوکوئی خاص گائیڈ لائن دے۔ البتہ میڈیا کو از خود ہی قومی سلامتی و مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اس حوالے سے پیشہ ورانہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔نہایت جانفشانی سے بہر حال ڈان لیکس کا ایک بڑا “قومی سلامتی”کا مسئلہ اگرچہ حل ہو گیا اور جمہوری اداروں کی بالادستی اور اداروں کے احترام کی بات کر دی گئی مگر ہوائے سیاست بتا رہی ہے کہ آنے والے سیاسی موسموں میں جہاں پاناما لیکس سیاسی خاندانوں کی ساکھ کے لیے اہم ہو گی ،وہیں پہ ڈان لیکس بھی حب الوطنی اور قومی مفاد کے زاویےسیدھی کرتی نظر آئے گی۔فی الحال یہ بحران بخیرت ٹل گیا اور اداروں نے ایک دوسرے کا احترام بھی کیا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply