ٹھنڈی ہوا

وه خوبصورت ادا اس کی ،،پاس سے چھو کر گزری تو ہوش و حواس سے بیگانگی کا شدت سے احساس ہونے لگا ۔سوچا کیوں نہ اس ظالم,چنچل,قیامت خیز و دلکش اور اپنائیت کا زخم دے کر جانے والی کا تعاقب کیا جائے ۔بس اسی کمبخت ہوس نے اس کے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا ۔نہ چاہتے بھی اس شعر کے مصداق بن گئے
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر
غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گذر گیا
راه چلتے کئی جگہوں پر سے گرنے کا احساس ہوا ۔۔۔۔
ہهت سی اونچائیاں دیکھنے کو ملیں ۔۔غرض اس حسین کی تڑپ میں گم ۔۔۔
نہ اپنا ہوش رہا نہ گرنے کی پرواه, اس کے انداز دلربائی اس جگہ دیکھنے کو ملے جہاں اوپر سے گرتے پانی کی پھوار کے دلگداز منظر کے احاطے میں اپنا جلوه دکھایا…
ہم اسی دن۔۔ اسی لمحے اسی پل اسی ساعت اس ٹھنڈی ٹھنڈی اور پر لطف ہواکے دیوانے ہوگئے ۔۔۔
یہ ہوا ۔۔گاهکوچ بالا گلگت بلتستان کی یاد ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

دانش احمد شہزاد
اعزازی مصنف گلوبل سائنس کراچی،پریس رپورٹر ہفت روزہ سوہنی دھرتی، پریس رپورٹر ہفت روزہ ایف آئی آر کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply