آرام قلندر کو تہہ خاک نہیں ہے

مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا
آرام قلندر کو تہہ خاک نہیں ہے
سن انیس سو اڑتیس کے اواخر میں اک مرد درویش رات کے دوسرے پہر گنگنا رہے تھے
سرود رفتہ باز آید کہ نہ آید
نسیم از حجاز آید کہ نہ آید
(خدا جانے کہ وہ پہلے والا دور آئے گا یا نہیں حجاز کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلی آئے گی یا نہیں)
اس درویش کا خاکی بدن تو تہہ خاک چلا گیا لیکن اس نے اپنے پیچھے ایسا کام چھوڑ دیا جو کسی حساس انسان کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے. علامہ اقبال کے کلام میں اتنی قوت موجود ہے کہ وہ پہلے سے موجود فکر کی تخریب و ریخت کرتے ہیں پھر اس ملبے سے فکر کی نئی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں.۔ان کے موضوعات ہی اتنے الگ اور دلچسپ ہیں کہ قاری خود ہی اس میں ڈوبتا چلا جاتا ہے. وطنیت ، مارکسزم ، تصوف ،عہد رفتہ ، زوال موجودہ ، امید مستقبل، الہیات ، جمہوریت عصر ، سیاسیات مغرب ، خلافت اسلامیہ اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر وہ سیر حاصل لکھتے ہیں۔۔علامہ صاحب اپنے مشاہدات سے ہر معاملے کی بنیاد اور تہہ میں موجود حقائق پر نظر کرتے ہیں اور بحر موجودات میں سے ایسے گوہر نایاب ڈھونڈ نکالتے ہیں قاری جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ فرماتے ہیں ۔
میری مشکل؟ ہستی و شور و سرود و درد و داغ
تیری مشکل؟ مے سے ہے ساغر، کہ مے ساغر سے ہے
یعنی علامہ اس مقام پر سوچ رہے ہوتے ہیں جہاں ایک عام انسان کی فکری پرواز پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر پاتی۔ علامہ کی فکر اور شاعری کا مرکز و محور انسان کی تربیت اور فکری پرورش ہے، ان کا سارا کام انسان کو خاکی مخلوق سمجھ کر اسے خاک سے اٹھانے کی جستجو کرنا ہے. فرماتے ہیں :
ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے قضا کا
ظلمت کدہ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشونما کا
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
ان کے نزدیک انسان کائنات کا مرکز ہے وہ تمام جمادات ، نباتات و حیوانات کو انسان کا مطیع سمجھتے ہیں اور اسی بنا پر انسان کو جھنجھوڑتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچانو۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ انسان بے شک غبار راہ سے تخلیق شدہ ہے لیکن اس کو جمال عطا کیا گیا ہے اور ذوق جمال دیا گیا ہے۔ انسان جب خود سے پست تر اشیاء کا خادم بنتا ہے تو اپنی انسانیت سے گر جاتا ہے فرماتے ہیں:
نوید جس کی فراز خودی سے ہو ، وہ جمیل
جو ہو نشیب میں پیدا، قبیح و نا محبوب
وہ ستاروں اور علم نجوم کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گردشِ انجم انسان کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکتی ، تقدیر کے پابند نباتات اور جمادات تو ہو سکتے ہیں لیکن حضرت انسان نہیں۔ فرماتے ہیں :
مقام بندئہ مومن کا ہے ورائے سپہر
زميں سے تا بہ ثريا تمام لات و منات
اور اسی بات کو بال جبریل کے اس شعر میں کیا خوب بیان کرتے ہیں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
اسی غزل کے مطلع نے مجھ پر ایک عرصہ جادو چلائے رکھا ہے شعر دیکھیں:
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
یہاں علامہ دو باتوں کو کتنی خوبصورتی سے بیان کر رہے ہیں ۔ پہلی بات یہ کہتے ہیں کہ جنوں رازوں کو آشکار کرتا ہے دوسرا یہ فرماتے ہیں کہ میرا جنوں ایسے رازوں سے پردہ اٹھا رہا ہے جو اک زمانے میں جبریل نے دنیا کے سامنے کھولے تھے۔ یہاں ایک واقعہ بھی یاد آتا ہے ایک دن جرمنی میں کسی محفل میں علامہ سے پوچھا گیا کہ آپ اس صدی میں بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آسمان سے انسان پر وحی اترتی تھی۔ علامہ نے جواب دیا، وہ تو بہت بڑی ہستی تھی ، مجھ جیسے حقیر انسان پر بھی غیب سے پوری پوری نظمیں اترتی ہیں
یہ تو سب جانتے ہیں کہ علامہ امت مسلمہ کو دنیا کی حکمران قوم دیکھنا چاہتے تھے لیکن عوام اس بات سے صرف نظر کر جاتی ہے کہ علامہ اس کا ایک طریقہ کار بھی بیان کرتے ہیں ۔ ان کا شعر یوں ہے
پہلے خوددار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت دارائی کر
اور ساتھ ہی نحیف و نزار فکر کے حامل انسان کے ہاتھ میں دنیا (یا مذہب) کی حکمرانی دینے کے بھی سخت خلاف ہیں فرماتے ہیں :
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز
الفاظ کی اتنی خوبصورت بنت کاری کرنے کے بعد وہ نصیحت فرماتے ہیں کہ ان کے کلام کا مزا لینے کی بجائے اس میں چھپے مفہوم کو سمجھا جائے. کہتے ہیں:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
مزید لکھتے ہیں
نَغمہ کُجا و من کُجا سازِ سُخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
(میں کہاں اور شاعری کہاں, یہ تو اک بہانہ ہے، میرا مقصد بے لگام اونٹنی (مسلم قوم) کو قطار میں لانا ہے)
رومانوی شاعری دیکھیں تو علامہ یہاں بھی سب کو پیچھے چھوڑتے نظر آتے ہیں درد ہجر ، وصال ، غم، موت اور ساقی و میخانے کے بارے میں شاندار اسلوب سے لکھتے ہیں ۔ علامہ نے عشق کو خصوصی طور پر بلندیوں پر پہنچا کر ایک مقدس جنس بنا دیا ۔ عشق کو انتہاوں کی ابتدا کہتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ و جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے
ان کے فارسی کلام میں بھی جا بجا عشق مقدس کی روشنیاں نظر آتی ہیں
نہ از ساقی نہ از پیمانہ گفتم
حدیث عشق بے باکانہ گفتم
(میں نے نہ تو ساقی اور نہ ہی پیمانے کی بات کی بلکہ عشق کی باتیں کھلے الفاظ میں کی ہیں)
من بندہ آزادم عشق است امام من
عشق است امام من عقل است غلام من
(میں آزاد بندہ ہوں اور عشق میرا امام ہے ۔۔ عشق میرا امام ہے اور عقل کو میں غلام رکھتا ہوں).
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں چند ایسے مکالمے لکھے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے وہ کیفیت جس سے میں گَزرا ہوں وہ بیان سے باہر ہے. ان کے چند مکالمے
ابلیس و جبریل،غلام قادر رہیلہ ،تصویر و تصویر گر کا مکالمہ،پیر رومی و مرید ہندی۔۔پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں. اس کے علاوہ ان کی نظمیں جیسے ،خضر راہ،اور ،ابلیس کی مجلس شوریٰ ،وہ مکالمے ہیں جو اگر علامہ اقبال نہ لکھتے تو شاید کوئی اور نہیں لکھ پاتا۔ یہ دونوں نظمیں اور بال جبریل میں موجود ،مسجد قرطبہ اور ،ساقی نامہ، علامہ صاحب کا ماسٹر پیس ہیں۔علامہ کی فکر عمر کے مختلف حصوں میں بدلتی رہی ہے، وہ ایک تغیر پذیر انسان تھے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق زیادہ مناسب رائے کو قبول کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے۔ دیدار الہٰی کی خواہش ان کے کئی اشعار سے ظاہر ہوتی ہے۔ جنت کے بارے میں فرماتے ہیں :
باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے؟
یا رخ بے پردہ حسن ازل کا نام ہے؟
دید سے تسکین پاتا ہے دل مہجور بھی!
لن ترانی کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟
عشق نبوی ﷺ میں ڈوبے ہوے جواب شکوہ کے آخری چند بند روح کو خوش کر دیتے ہیں ان کا یہ مشہور زمانہ شعر ان کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
شان صحابہ کے بیان میں ان کی ابو بکر صدیق پہ نظم بہت مشہور ہے ، صحابہ و اہلبیت کی شان کی میں ان کا یہ شعر کئی کتابوں پر بھاری ہے:
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
شہدا کی شان میں فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب میں دربار رسالت مآب میں پہنچا تو آقا نے مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے میرے لئے کیا تحفہ لائے ہو۔ علامہ جواب دیتے ہیں کہ:
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
علامہ ایسی شخصیت ہیں کہ ان کے مضامین و موضوعات پر دریائے خیالات کا بہاو ذہن میں امڈا چلا آ رہا ہے اختصار کی بھر پور کوشش بھی بار آور ثابت نہیں ہو رہی۔
علامہ اقبال کون ہیں؟ اس سوال کا جواب لکھنے کے لئے مہینوں نہیں بلکہ برسوں کی ضرورت ہے۔ وہ دوراندیش تھے، فلسفی تھے، مفکر تھے، عاشق رسول تھے، حکیم الامت تھے اور ایک بہترین شاعر تھے۔ ان کی شاعری کے علاوہ ان کے خطبات اور مقالہ جات میں بھی ایک گہری بصیرت اور دانش کی جھلک نظر آتی ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔صدیوں میں وہ صدی خوش نصیب ٹھہرتی ہے جس میں ایسے نابغے کا جنم ہو۔ علامہ میرے مرشد ہیں ۔ انہوں نے مجھے خودداری سکھائی ہے انہوں نے مجھے سوال کرنا سکھایا ہے ، تفکر اور تدبر کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ میں علامہ اقبال کے بعض افکار سے اختلاف بھی کرتا ہوں اور اگر علامہ ہوتے تو انہیں اس بات کی خوشی ہوتی کہ میرا ان سے اختلاف انہی کی تعلیم ہے۔ علامہ کے چلے جانے سے اقبال دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ زندگی میں اتنا کچھ لکھ گئے کہ بالآخر انہیں کہنا پڑا:
چنگ را گیرید از دستم کہ کار از دست رفت
نغمہ ام خوں گشت و از رگهائے ساز آید بروں
(ستار میرے ہاتھ سے لے لو میرا کام ختم ہو چکا ، میرا نغمہ اِس کی رگوں (تاروں) میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے)

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply