نذرِ غالب، نظمِ آنند- 4

ہر ذرّہ محو ِ جلوۂ حسن ِ یگانہ ایست

گوئی طلسمِ شش جہت آئینہ خانہ ایست

۰۰۰

ذرّہ ہو ں میں، ابیکا سا ، اک جسمیہ ہوں میں

خردی میں ایک خال ، اقل مرتبہ، صغیر

کترن سا پھانک پھوک ہوں، اک پرخچہ …خفیف

اک خال ِ سر ِ موِ سے بھی بڑھ کر نہیں وجود

آدم ہوں ، ایک شمہ برابر نہیں ہو ں میں!

دنیا، فلک اسیر، خسوف و کسوف ِ دَیر

آئینوں کا اک شش جہت ،لا مختتم مکاں

اور اس کے ایک کونے میں حیراں کھڑا ہوں میں

بیدار، سراپا نظر ہوں ، منہمک ہوں میں

اس حسن ِ دلاویز کو کیسے کروں بیاں؟

اک ٹک نظر سے دیکھ کر ، مَیں، ذرّۂ حقیر

پڑھتا ہوں درُود… اورجھکاتا ہوں سر کو میں!

………………………………………………….

Advertisements
julia rana solicitors

(اس نظم میں ایک تجربے کے طور پر دو بحور کا اشتمال و امتزاج رو ا رکھا گیا)l

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply