ہر ذرّہ محو ِ جلوۂ حسن ِ یگانہ ایست
گوئی طلسمِ شش جہت آئینہ خانہ ایست
۰۰۰
ذرّہ ہو ں میں، ابیکا سا ، اک جسمیہ ہوں میں
خردی میں ایک خال ، اقل مرتبہ، صغیر
کترن سا پھانک پھوک ہوں، اک پرخچہ …خفیف
اک خال ِ سر ِ موِ سے بھی بڑھ کر نہیں وجود
آدم ہوں ، ایک شمہ برابر نہیں ہو ں میں!
دنیا، فلک اسیر، خسوف و کسوف ِ دَیر
آئینوں کا اک شش جہت ،لا مختتم مکاں
اور اس کے ایک کونے میں حیراں کھڑا ہوں میں
بیدار، سراپا نظر ہوں ، منہمک ہوں میں
اس حسن ِ دلاویز کو کیسے کروں بیاں؟
اک ٹک نظر سے دیکھ کر ، مَیں، ذرّۂ حقیر
پڑھتا ہوں درُود… اورجھکاتا ہوں سر کو میں!
………………………………………………….
(اس نظم میں ایک تجربے کے طور پر دو بحور کا اشتمال و امتزاج رو ا رکھا گیا)l
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں