پاکستان کے غیر مسلموں کی شرعی حیثیت

مسلمانوں کی عمل داری میں رہنے والے غیر مسلموں کی کئی قسمیں ہیں، ان میں ایک قسم ’’ذمی‘‘ بھی ہے ، ذمہ خاص حالات کے نتیجے میں طے پانے والا خاص قسم کا عقد ہوتا تھا۔ جس دور میں یہ عقد ہوتا تھا اس زمانے میں یہ بین الاقوامی عرف ورواج کا حصہ بھی تھا اور اس عقد کے نتائج سے متعلقہ لوگ آگاہ بھی ہوتے تھے۔ جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کی طرف نسبت کرکے یہ بات کہی جارہی ہے کہ آج پاکستان میں رہنے والے شہری اقلیت نہیں ہیں بلکہ برابر کے شہری ہیں انہوں نے یہ بات اگر کہی ہے تو درست کہی ہے۔ ذمی بنانے اور جزیہ لینے کا تصور خود قرآن میں موجود ہے، لیکن یہ وہ چیز نہیں ہے جسے اسلام لے کر آیا ہو بلکہ پہلے سے مروج چیز کو مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ بعض روایات میں ذکر ہے کہ رسول ﷺ نے جب ابو طالب کو اسلام کی ترغیب دی تو (ایک سردار کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ) آپ نے کلمے کا تعارف کراتے ہوئے یہ کہا کہ اس کے نتیجے میں عجم تمہیں جزیہ ادا کریں گے (یہ ذہن میں رہے کہ انہی کے بیٹے علی کو فتح خیبر کے لئے بھیجتے ہوئے یہ بتایا کہ اصل مقصود ہدایت ہے نہ کہ مال کا حصول)۔ بہر حال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جزیہ اور ذمہ کوئی نیا تصور نہیں تھا۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان اکثریت کے ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے بارے میں یہ ضروری نہیں کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہی ہوں، کوئی نص ایسی موجود نہیں ہے جو غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کو ’’ذمہ‘‘ میں محصور کرتی ہو اور مسلمانوں کو پابند بناتی ہو کہ اس کے علاوہ ان سے کسی نوعیت کا تعلق نہیں ہوسکتا۔چار پانچ سال پہلے میرے درسِ مشکاۃ میں ایک حدیث کی تشریح کے دوران اس موضوع پر ضمنی گفتگو آئی ہے ، اسے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جو حدیثیں اس درس میں زیر تشریح ہیں ان میں بعض غیر مسلموں کو سلام کرنے اور راستے کے درمیان چلنے سے منع کیا گیا ہے، ان حدیثوں کی تشریح کے ضمن میں صرف ذمی کے تصور سے متعلق نوٹ نقل کیا جارہا ہے۔
’’یہ تین حدیثیں ہیں ان میں پہلی بات تویہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ” جب اہل کتاب میں سے کسی کو راستے میں پاؤتواس کوراستے کے تنگ حصے پرچلنے پرمجبور کردو ۔ راستے کے درمیان میں نہ چلنے دو۔بلکہ و ہ ایک طرف ہوکر چلے۔ اس کاتعلق ذمیوں کے احکام کے ساتھ ہے، ذمیوں کے احکام کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں ہے، تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن کریم نے سورہ توبہ کی آیت نمبر ۲۹ میں جہاں غیر مسلموں کو ذمی بنانے کا ذکر ہے وہاں یہ بھی فرمایا”حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون” اس میں ذمیوں کے لئے صغار کا ذکر ہے۔ صغار کے معنی ہیں دب کر رہنا، تابع ہوکررہنا۔ اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ انہیں تنگ راستے پر مجبور کرو ، یہ بھی بظاہر اسی کی عملی شکل ہے۔ صغار کے معنی بیان کرتے ہوئے امام شافعیؒ نے فرمایا ’’هو جريان أحكام أهل الإسلام عليهم‘‘ یعنی اصل مقصود یہ ہے کہ وہ ہمارے ماتحت ہو کر رہیں ، ہماری ریاستی رٹ اور عمل داری کو تسلیم کریں ، کسی قسم کی بغاوت یا سرکشی نہ کریں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس آیت میں صغار کا ذکر ہے اس میں ان کفار کی بات ہورہی ہے جو قتال کے نتیجے میں ہماری تابع داری اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لہذا آیت براہِ راست ان کفار سے متعلق نہیں جن کے ساتھ ہمارا عہد کسی اور نوعیت کا ہو۔ ظاہر ہے کہ جو محض قتال کے نتیجے میں ہماری تابع داری میں آئے ہیں ان سے سرکشی کا خطرہ بھی لازماً رہے گا، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ اس زمانے میں جو علاقے غیر مسلموں کے ہوتے تھےوہاں تقریباً وہی رہائش پذیر ہوتے تھے، اس لئے ان کے جتھا بنانے کے امکانات اور زیادہ ہوجاتے تھے۔ ایسی حالت میں قرآن نے خصوصیت سے کہا کہ انہیں ہمارا قانون تسلیم کرکے ہی رہنا ہوگا ، سر چڑھ کر نہیں۔لہذا امام شافعی کے الفاظ کے مطابق ہمارا قانون ان پر جاری ہونے سے ہی صغار کا قرآنی تقاضا تو پورا ہوجاتا ہے ، لیکن ابھی ذکر کی گئی وجوہات کی بنیاد پر جس طرح کی سرکشی کا خطرہ ان سے ہوسکتا ہے اس کے دفعیے کے لئے بعض دیگر اقدامات بھی کرنے پڑسکتے ہیں جن کے ذریعے ان میں یہ احساس تازہ رہے کہ ہم نے کسی قسم کی سرکشی نہیں کرنی۔ تاہم ان اقدامات کی نوعیت محض انتظامی ہوگی اور وہ زمان و مکان کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں ، وہ اقدامات بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں۔ تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں جو ذمیوں کے احکام میں ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ یہ کیا جائے وہ کیا جائے ان کی نوعیت بھی یہی سمجھنی چاہئے۔
یہاں حدیث میں جو کہا گیا ہے کہ انہیں تنگ راستے پر مجبور کرویہ بھی اسی طرح کی خاص صورتِ حال کے خاص اقدامات سے متعلق ہے۔ یہ اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کررہے ہیں کہ ابو صالح ، ان سے روایت کر رہے ہیں ان کے بیٹے سہیل ، ان سے آگے بے شمار حضرات روایت کررہے ہیں۔ سہیل کے شاگردوں کا اس حدیث کے نقل کرنے میں خاصا اختلاف ہے کہ یہ حکم کس کے بارے میں ہے۔ یہاں مشکوٰۃ میں صحیح مسلم کے حوالے سے جو روایت مذکور ہے اس میں یہود و نصاری کا لفظ ہے (یعنی یہود ونصاریٰ کو سلام نہ کرو اور انہیں راستے کے بیچ میں نہ چلنے دو)۔ بعض روایات میں مشرکین کا لفظ ہے”بعض روایتوں میں سہیل کے شاگرد زہیر سے پوچھا گیا کہ کیا یہود و نصاریٰ مقصود ہیں ، انہوں نے کہا نہیں ، مشرکین کی بات ہورہی ہے”۔
بعض روایتوں میں صرف جمع مذکر کی ضمیر ہے ، إذا لقیتموہم ۔ لہذا اس بات میں خاصا ابہام ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات کس سیاق میں کس طرح کے لوگوں کے بارےفرمائی ہے۔ اس لئے اس کا انطباق قواعدِ عامہ کی روشنی میں کرنا چاہئے۔جیسا کہ آگے سورہ ممتحنہ کے حوالے سے آئے گا کہ غیر محارب کفار کے ساتھ ہمیں اچھے سلوک سے منع نہیں کیا گیا اس لئے اس آیت کی رو سے انہیں اچھا راستہ دینا ممنوع نہیں ہوگا اور ہم انہیں تنگ راستے پر چلانے کے مکلف نہیں ہوں گے۔ اگر اس حدیث کو بالکل اپنے عموم پر رکھا جائے تو یہ بات سورہ ممتحنہ کی اس آیت کے خلاف ہوگی۔ حنفیہ کے ہاں تو ویسے ہی جب خبر واحد نص قرآنی کے خلاف ہو تو اس میں تاویل کی جاتی ہے خصوصا جبکہ اس خبر واحد میں اپنے مصداق کے حوالے سے بھی خاص ابہام موجود ہو(خود عہد نبوی میں مدینہ منورہ یا زیر نگین آنے والے کسی اور علاقے میں اس پر حکم کی پابندی کی کتنی مثالیں ملتی ہیں یہ الگ سوال ہے)۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آج کل مسلمان ملکوں میں جو غیر مسلم رہ رہے ہوتے ہیں وہ “معاہد”کے مفہوم میں تو داخل ہوسکتے ہیں عموماً وہ ذمی نہیں ہوتے ، اس لئے ذمہ ایک خاص قسم کا عقد ہےجو ان کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ انہیں ان مسلمان ملکوں کا مکمل شہری تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ ہمارے عہد کی نوعیت بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔اسی طرح غیر مسلم ملکوں کے عام باشندے بھی ہمارے لئے معاہد تو ہیں اس لئے کہ ہم ایک عہد کے ساتھ وہاں رہائش پذیر ہیں لیکن نہ وہ ہمارے ذمی ہیں نہ ہی ہم ان کے ذمی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

– تفسیر بغوی ۔
– مثلا مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر : ۹۸۳۷۔
– مسند ابن الجعد حدیث نمبر ۲۶۷۲۔ مسند امام احمد بن حنبل حدیث نمبر : ۷۵۶۷۔
-صحیح مسلم ، حدیث نمبر : ۲۱۶۷۔

Facebook Comments

مفتی محمد زاہد
محترم مفتی محمد زاہد معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتم ہیں۔ آپ جدید و قدیم کا حسین امتزاج اور استاد الاساتذہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply