پیارے ڈونلڈ! وعدہ وفا کرنا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے بہت سارے لوگ خوش ہیں۔ کچھ لوگ اس لئے خوش ہیں کہ امریکی سامراج اب کھل کر مسلمان دشمنی کا اعلان کرےگا ۔لہٰذا مسلمانوں کے بھٹکے ہوئے ’’آہوں‘‘ کو سوئے حرم جانے میں اب دقت نہ ہوگی۔ خود جائیں گے تو عزت قائم رہے گی ورنہ گھسیٹ کر پہنچا دئیے جائیں گے۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ’’مسلمان کو مسلمان کردے گا طوفان ڈونلڈ کا‘‘۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے وہ لوگ بھی خوش ہیں جن کے رشتہ دار امریکہ میں مقیم ہیں اور ان سے اپنے رشتہ داروں کی ترقی نہیں دیکھی جارہی ۔لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے کم ازکم ان کے رشتہ داروں کو پھینٹی تو لگ جائے گی۔ ویسے بھی دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اب یہی دعائیں کریں گے کہ مولا! ’’شکر ہے تیرا کہ ہماری دعائیں قبول کیں، بس اس ٹرمپ بھائی کو انتخابی وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
کچھ لوگوں کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اندرونی معاملات پر توجہ دینا چاہتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ٹرمپ کا فوکس امریکہ ہے ، دنیا ہر گز نہیں‘‘ جبکہ ڈیموکریٹس کی ڈرون پالیسی کو وہ پہلے ہی مسترد کرنے کا اعلان کر چکا ہے کہ ’’ڈرون حملے کسی ملک میں کسی بھی قیمت پر نہیں ہونگے کم از کم میرے دستخط سے تو ہر گز نہیں ہونگے‘‘۔ اس لئے یہ طبقہ یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ دوسرے ممالک میں امریکی اثرورسوخ میں کمی آجائے گی۔ ویسے اسے خام خیالی ہی تصور کیا جائے تو بہتر ہے۔ جو یہ سوچ رکھتے ہیں وہ شاید امریکی تاریخ سے اور پینٹاگون کی طاقت سے نابلد ہیں۔مذہبی طبقہ اس لئے بھی خوش رہے گا کہ مظلومیت بیچنے کا کاروبار مزید ترقی پائے گا۔ انہیں اس بات کی بھی خوشی ہوگی کہ ہندوستان اور امریکہ میں کٹر مذہبی اور اینٹی مسلم حکومتیں آسکتی ہیں اور انتہاپسندانہ نظریات پرباقاعدہ سیاست کرسکتی ہیں تو پاکستانی دینی جماعتیں کیوں نہیں؟۔ ویسے دینی جماعتوں کے لئے بہرحال ’’وِن وِن‘‘ صورتحال ہے۔ اب امریکہ مردہ باد اور مرگ بر امریکہ نعروں میں مزید شدت آنے کی امید ہے۔ جبکہ اس معاملے میں حقیقت وہی ہے جس کی طرف معروف صحافی فیض اللہ خان نے کیا لطیف اشارہ کیا تھا۔ ’’طاغوت کا عملی انکار کرنے والا مارا جائیگا، جس نے زبانی مخالفت کی انتہا پسند تصور ہوگا۔ جو مصلحت کے نام پہ سودا کرے گا اقتدار میں حصہ پائیگا‘‘۔میں نے تو الیکشن سے پہلے ہی کہا تھا کہ ’’چاہے گدھا میدان مارے یا ہاتھی، بکروں نے بہر صورت ذبح ہی ہونا ہے‘‘ اور مظلوم اقوام اچھی طرح جانتی ہیں کہ قربانی کے بکرے بھلا اور کون ہوسکتے ہیں۔

Facebook Comments

سید اسرار علی
روزگار بین الاقوامی، تعلیم قومی اور تحریروتقریر مقامی ،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply