مشرف عالم ذوقی :کہا نی اختتام پذیر ہوئی۔۔احمد سہیل

تم جیسے گئے ،ایسے بھی جاتا نہیں کوئی۔۔

مشرف عالم ذوقی بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یا اللہ ایسا لگتا ہے، اردو ادب کے گاؤں میں موت کا بھیڑیا گھس آیا ہے۔ اور ادباء  اور شعراء  دینا سے رخصت ہورہے ہیں۔   ذوقی بھائی کو رحمتوں اور محبتوں کے سائے  عطا ہوں ، اور اللہ تعالیٰ اعلیٰ مقام سے نوازے۔ ۔آمین۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ،

یہ ناقابلِ  برداشت دکھ   ہے ،وہ کرونا وائرس سے متاثر تھے۔

مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا،مگر اس میں احتجاج اور مزاحمت بھی تھی۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ بھارت کی  معاشرت اور سیاسی حالات پر خصوصا ً چند برسوں کے دوران   افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انہوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔

مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ،شہر چپ ہے، مسلمان،بیان،لے سانس بھی آہستہ، آتشِ رفتہ کا سراغ، شامل ہیں۔ مشرف عالم ذوقی  70 کے اواخر میں کچھ دن ورجینیا/ مرے لینڈ امریکہ میں بھی قیام پذیر رہے ہیں۔

مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔

چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دِہلی میں ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

ذوقی بھائی 1985میں   دہلی آئے تھے۔ 1987سےان کی وابستگی دوردرشن سے ہوگئی تھی، اس زمانے میں دوردرشن میں سیریلز کے علاوہ ڈاکیومنٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ اور اس طرح کے پروگرام بنائے جاتے تھے۔ جن میں صحافت کو کہیں نہ کہیں دخل ہوتا تھا،شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر انہوں  نے دستاویزی فلم نہ بنائی ہواور ایک ڈاکیومنٹری فلم کے لیے  سکرپٹ لکھنا، تحقیق کا جو کام ہے اس کی ذمہ داری بھی کم وبیش وہی سنبھالتے تھے۔ ۔انہوں  نے ہندی اور اردو کے  52 بڑے لوگوں پر جن میں قراۃ  لعین حیدر ،نامور سنگھ ،راجندر یادو،جوگندر پال، ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں۔ ان کی شخصیات اور ان کے ادبی کارناموں پر دستاویزی فلمیں  بنی    ہیں۔

ذوقی بھائی کی موت پر ان کے دوست مشتاق احمد نوری کا کہنا ہے”مشرف عالم ذوقی بھی ساتھ چھوڑ گیا یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ  کو آتا ہے ،برسوں کی پہچان ایک پل میں ختم۔کتنا پیارا انسان تھا ،جو دیکھتا وہی  لکھتا ،اتنا نڈر اور بےباک قلم کار پھر پیدا نہیں ہوگا۔ صحت کے مقابلے میں لاپرواہ اس کا سینہ بلغم زدہ تھا گزشتہ دنوں میں پٹنہ سے ایک آیورویدک دوا لیکر گیا، اسے بتایا تو گہار لگا دی
” نہیں نوری بھائی   آپ نہ آئیں ، دہلی میں کووڈ کا راج ہے آپ خود بیمار ہیں “

لیکن میں نہیں مانا، خود لیکر گیا، خیریت دریافت کی اور چلا آیا ۔دو دن بعد تبسم نے خبر کی کہ اب بہتر ہیں مزے سے سانس لے رہے ہیں۔جس دن تبسم اسے ہوسپٹل لیکر جارہی تھی مجھ سے بات کرکے رونے لگی میں نے ہمت بندھائی ، رات پھر بات ہوئی ۔ اس نے بتایا کووڈ تو نیگٹو آیا ہے لیکن بلغم سے سینہ جکڑا ہے ،بار بار کہہ رہے ہیں تبسم میں اب نہیں بچوں گا۔

اپنی تحریر سے جادو جگانے والا ہند و پاک میں بے حد مقبول فکشن نگار زندگی کی بازی ہار گیا ۔میرا بھائی  تھا، دل کے قریب تھا ،میری ڈانٹ بھی سن کر گردن جھکا لیتا تھا، بیوی کا آئیڈیل   شوہر اور بیٹے کا دوست جیسا باپ کہاں چلا گیا۔میرا دل کانپ رہا ہے آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں،ہائے  میرا اپنا چلاگیا ۔ذوقی تم اکیلے نہیں  گئے ، فکشن کا ایک سنہری باب تمہارے ساتھ چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ،ادب بالخصوص جدید ناول، فلم اور ٹی وی سریلز پر خوب باتیں ہوتی تھی۔ وہ دن کو سوتے تھے اور رات کو لکھا کرتے تھے۔ میں ان سے  ہمیشہ  یہ سوال کرتا تھا کہ ” ذوقی بھائی آپ اتنے  موٹے  موٹے  ناولز اتنے کم وقت  میں کیسے لکھ لیتے ہیں ؟ تو مسکراکر کہتے تھے ” یار بس اندرکا کرب اور معاشرتی اور سیاسی بحران اور میرا ہمزاد یہ سب لکھوادیتا ہے”۔ ذوقی بھائی بہت خوش پوش انسان تھے۔
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں!
امن لکھنوی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply