• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • راکٹ اسرائیل پر گرے ہیں اور۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

راکٹ اسرائیل پر گرے ہیں اور۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

اسرائیل خطے میں امریکی پولیس مین کا کردار ادا کر رہا ہے، اسے اس بات کا زعم ہے کہ اس کے پاس خطے کی مضبوط ترین فوج اور اسلحہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ اسرائیل کو اس بات کا گھمنڈ بھی ہے کہ اب تک اس کی جن عرب ممالک سے جنگیں ہوئی ہیں، ان میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دو ہزار چھ تک یہ باتیں درست تھیں اور تمام عرب ممالک احساس کمتری میں مبتلا تھے، مگر حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ میں اسرائیل کی عبرناک شکست نے اس کے ناقابل شکست ہونے کے تاثر کو ختم کر دیا ہے۔ 33 روز جاری رہنے والی یہ جنگ 1948ء کے بعد خطے کے مسلمانوں کے لئے پہلے اچھی خبر تھی۔ اس کامیابی پر حزب اللہ کا جشن منانا تو بنتا تھا، کیونکہ حزب اللہ نے بڑی قربانیاں دے کر یہ کامیابی حاصل کی تھی اور حزب اللہ کی حمایت کرنے والے جہاں جہاں موجود تھے، انہوں نے جشن منائے۔ اسرائیل اور اس کے حمایتوں کے لئے یہ بات حیران کن تھی کہ وہ علاقے جہاں شیعہ آبادی نہیں ہے، حزب اللہ کی حمایت بھی موجود نہیں تھی، مگر حزب کی جیت پر وہاں بھی بہت بڑی تعداد میں جشن منائے گئے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ حزب اللہ مسلمانوں کی قومی مزاحمتی تحریک ہے اور دوسرا مسلمان مسالک کے اختلاف کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے۔

اسرائیل جب چاہتا ہے، جہاں چاہتا ہے، حملہ کر دیتا ہے۔ خطے میں پچھلے چند سال میں اسرائیل کا کردار ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اسرائیل بین الاقوامی سرحدوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اسرائیل نے اپنے خود ساختہ مفادات بنائے ہوئے ہیں، جب چاہتا ہے، ان کے حصول کے لئے کہیں بھی حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسرائیل کا یہ طریقہ کار بالکل امریکہ جیسا ہے، امریکہ بھی جہاں چاہتا ہے دہشت گردی، جوہری ہتھیار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتا ہے اور ملکوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ افغانستان، عراق اور لیبیا اس کی مثالیں ہیں ۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ لوگ اپنی غلطی ثابت ہو جانے پر بھی معافی نہیں مانگتے ۔ عراق کو جوہری ہتھیاروں کے بہانے تہہ و بالا کر دیا اور مکمل قبضہ ہو جانے کے بعد جب یہ ثابت ہوگیا کہ جوہری ہتھیار نام کی کوئی چیز نہیں تھی تو بھی کسی قسم کی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا۔ اسرائیل کبھی غزہ کی پٹی پر حملہ کرتا ہے اور کبھی بین الاقوامی پانیوں میں غزہ میں محصور لوگوں کی مدد کے لئے جانے والے بحری جہاز پر حملہ کرتا ہے اور اسے کوئی پوچھتا تک نہیں۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کی کھلی بدمعاشی پر جو بھی قرارداد آتی ہے، اسے امریکہ ویٹو کر دیتا ہے۔

حزب اللہ کی فتح نے مسلمانوں میں اتحاد و وحدت کی جو فضا قائم کی تھی، یہ کسی بھی طرح بین الاقوامی استعمار کے لئے سازگار نہیں تھی۔ اس کو ختم کرنے کے لئے بڑی حکمت عملی سے لڑاو اور حکومت کرو کے پرانے برطانوی فارمولے پر عمل کیا گیا اور مسلمانوں کو فرقہ واریت میں مبتلا کرکے ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش کی گئی۔ خطے میں موجود آمریتوں نے اپنی شخصی بادشاہتوں کو بچانے کے لئے بین الاقوامی استعمار کا ساتھ دیا ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، شام جو خطے کا ایک پرامن ترین اور نسبتاً ترقی یافتہ ملک تھا، اسے برباد کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے کیا گیا۔ ہر وہ ملک یا شخصیت جو کسی بھی طرح سے اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتی ہو، وہ کسی بھی طور پر قبول نہیں ہے۔ بغور جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ مشرق وسطیٰ میں جاری اس ساری کشمکش کا فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے۔ 2006ء کے بعد لبنان میں حزب اللہ کے خلاف ایک دہشت گرد جماعت کی بنیاد رکھی گئی، جس نے لبنان کی حکومت کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا اور لبنانی فوج کے ایک آپریشن میں انہیں قابو کیا گیا۔ شام کی حکومت حزب اللہ کی سپورٹر تھی اور ایک سپلائی لائن کا کام کر رہی تھی، اس پتے کو ہمیشہ کے لئے کاٹنے کے لئے شام پر چڑھائی کر دی گئی، پہلے دنیا بھر کے دہشتگردوں کو جمع کرکے شامی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کو کمزور کیا گیا۔ پروگرام تو یہ تھا کہ ان انسانیت من گروہوں کے ذریعے شام کے محبت وطن گروہوں کو چوراہوں پر لٹکایا جائے گا اور اس پر کچھ عمل بھی ہوا، داعش اور جیش الاسلام کی بربریت نے بہت سے معصوم لوگوں کو زندگیوں سے محروم کیا۔

عملی طور پر ان دہشتگرد گروہوں کی شکست القصیر سے شروع ہوئی، وہ جو ایک کے بعد ایک شہر کو ہڑپ کرتے جا رہے تھے، یہاں پر انہیں روکا گیا۔ حلب کی آزادی نے ان دہشتگردوں کی ہمتوں کو توڑ دیا۔ اب دمشق کے گرد و و نواح میں تین اہم شہر ان کی دسترس میں تھے، یہ یہاں سے ہمیشہ دمشق میں کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے شام کی افواج نے ان علاقوں کی آزادی کے لئے کارروائی کا آغاز کیا اور ابتدائی ایام میں ہی بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل کیں۔ دہشتگرد چاروں طرف سے گھیرے میں آگئے تو معاہدے کرکے علاقہ چھوڑنے لگے۔ یہ بات کسی بھی طور پر ان لوگوں کے لئے قابل قبول نہ تھی، جنہوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ کرایا۔ اس کا مقصد بالکل وہی تھا، جیسے عراق کو کیمیکل ہتھیاروں کے نام پر برباد کیا گیا، شام میں نظر آتی شکست کے پیش نظر یہ الزام لگا کر براہ راست حملہ شروع کر دیا گیا۔ اسرائیل کی طرف سے حملے تو جاری تھے، اس دوران اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ اسرائیل کا ایک ایف سولہ طیارہ مار گرایا گیا، یہ اتنا بڑا نقصان ہے، جس نے اسرائیل کے فضائی برتری کے گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا اور امریکہ کی طرف سے فائر کئے گئے میزائلوں کو بڑی تعداد میں گرا دیا گیا۔ ان دو کامیابیوں نے بہت سے دفاعی مفروضات کو غلط ثابت کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چند روز پہلے اسرائیلی حملوں کے جواب میں شامی فوج نے کارروائی کی اور بعض اطلاعات کے مطابق 68 راکٹ فائر کئے، جن میں سے کئی اہم اسرائیلی دفاعی مورچوں پر گرے۔ اس خبر نے مغرب و مشرق میں اپنا اثر چھوڑا، اسرائیل نے فوراً ایران پر الزام لگا دیا، اس کے ساتھ ہی امریکہ نے بھی مہر تصدیق لگا دی کہ یہ حملے ایران نے کرائے ہیں۔ شام کی افواج اور حکومت کہہ رہے ہیں کہ یہ حملے اسرائیلی حملوں کے جواب میں کئے گئے، جس میں اسرائیل نے شام کے کئی مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ حملے اسرائیل پر ہوئے، مگر انہوں نے پاکستان میں بھی اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑ گئی، امریکہ نے فوراً اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ فرقہ پرست بہت خوش ہو رہے ہیں کہ اب ایران اور اسرائیل کی جنگ ہوگی۔ یہ جنگ محدود نہیں ہوگی بلکہ امریکہ جو پہلے ہی ایران کے چاروں طرف موجود ہے، وہ بھی اس میں کود پڑے گا۔ اسرائیل یہی چاہتا ہے کہ جنگ ہو اور امریکہ اس میں کود پڑے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اسرائیل اور فرقہ پرست یہاں ایک پیج پر ہیں۔ سعودی عرب پہلے چھپ کر اسرائیل کی حمایت کرتا تھا، اب تو علی الاعلان اکٹھے ہو چکے ہیں۔ فرقہ پرستوں کے پیجز سے یوں لگتا ہے کہ یہ راکٹ اسرائیل پر نہیں، ان کے دلوں پر چل گئے ہیں۔ کاش مسلمان ایک دوسرے کا تماشہ دیکھنے کی بجائے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے، ایک دوسرے کے مددگار ہوتے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply