پاک ہسٹری،تاریک گوشے۔۔طارق احمد/حصہ اول

1951 میں جنرل گریسی ریٹائر ہوے۔ تو چار سینیئر موسٹ جرنیلوں کی سمری وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئی۔ تاکہ ان میں سے کسی ایک کو پاک آرمی کا پہلا دیسی کمانڈر انچیف بنا دیا جائے۔ جنرل افتخار کا نام فائنل ہوا۔ لیکن وہ ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جنرل اکبر خان ، جنرل اشفاق المجید (بنگالی) اور جنرل رضا باقی بچے۔ لیکن کمانڈر انچیف ایک جونیئر موسٹ جنرل ایوب خان کو بنا دیا گیا۔ جن کا نام سمری میں شامل بھی نہیں تھا۔ کہا جاتا  ہے۔ سیکرٹری ڈیفینس میجر جنرل  سکندر مرزا نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے یہ تعیناتی کروائی۔ چند ماہ بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا۔ تو گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے پر نامزد کر دیا۔ اور خود وزیر اعظم بن گئے۔ ملک میں بنگالی زبان اور قادیانی ایشوز کو لے کر حالات خراب ہوئے۔ تو ملک غلام محمد نے اپنے ہی مربی اور باس خواجہ ناظم الدین کو بطور وزیراعظم برطرف کر دیا۔ اور امریکہ میں موجود پاک سفیر محمد علی بوگرا کو وزیراعظم نامزد کر دیا۔ جنرل ایوب کمانڈر انچیف کے ساتھ وزیر دفاع  اور  سکندر مرزا وزیر داخلہ بن گئے۔ اس دور میں امریکہ کے ساتھ سیٹو جیسے دفاعی معاہدے کیے گئے۔ اور پاکستان کولڈ وار میں روس کے خلاف امریکی اتحادی بن گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو بھی توڑ دیا۔ کیونکہ یہ اسمبلی 1935 کے ایکٹ میں موجود گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے جا رہی تھی۔ اسمبلی سپیکر مولوی تمیز الدین نے اس کے خلاف سندھ اسمبلی میں کیس کر دیا۔ اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس کانسٹینٹائن نے گورنر جنرل کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت ریورس کر دیا۔ یوں پاک سیاست میں نہ صرف نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھی بلکہ غیر منتخب سول و خاکی بیوروکریسی کو منتخب سیاسی نمائندوں کے اوپر مستقل طور پر ایک وائسرائے کی حیثیت دے ڈالی۔ صرف ایک جج جسٹس کارنیلیس نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا۔
گورنر جنرل غلام محمد اپنے بگڑتے فالج کا علاج کروانے امریکہ گئے۔ تو وزیراعظم نے اسکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل بنا دیا۔ میجر جنرل اسکندر مرزا نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ملک غلام محمد اور وزیراعظم دونوں کو برطرف کرکے خود پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔ اور پھر دو سال کے اندر چار وزرائے اعظم ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی ، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون کو برطرف کرکے ھر طرف اپنی دھاک بٹھا دی۔ آخری وزیراعظم فیروز خان نون کو اس لیے برطرف کیا وہ صدر کے اختیارات کو محدود کرنے جا رھے تھے۔ اور 8 اکتوبر 1958 کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب کی رضامندی سے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل ایوب نے 27 اکتوبر کو اپنے پرانے مربی ، ساتھی اور سرپرست میجر جنرل اسکندر مرزا کو برطرف کر دیا اور اپنا مارشل لاء لگا دیا۔ اور پوری طرح کولڈ وار میں امریکہ کے اتحادی بن گئے۔ اور بڈھ بیر کا فضائی اڈا امریکہ کے حوالے کر دیا۔
اسکندر مرزا برطانیہ جلاوطن ہو گئے۔ کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوے۔ تہران میں دفن ہوے۔ جہاں ایک خبر کے مطابق 1979 کے اسلامی انقلاب میں ان کی قبر کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ جبکہ ملک غلام محمد فالج اور اپاہج کی حالت میں فوت ہوے۔ اور اپنے وقت کے بے تاج بادشاہ کے جنازے میں محض چند افراد شریک ہوے ۔
پچاس کی دھائی کی پاک راج نیتی کی یہ ایک مختصر داستان  ہے۔ جو طالع پسندی ، آمریت ، بے مروتی ، دھوکہ دہی ، موقع  پرستی اور سول و خاکی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی باہمی چپقلش سے عبارت  ہے۔ چند پوائنٹس بڑے واضح ہیں۔ سیاستدان سول و خاکی بیوروکریسی کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔ جبکہ سول و خاکی بیوروکریسی اپنا وائسرائے کا رول چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ اور محلاتی سازشوں اور عدالتی ہمنوائ سے یہ کنٹرول قائم رکھا گیا۔ اور امریکہ کو سروس مہیا کی گئی۔  دوسری جانب سیاستدان مجبور تھے۔ وہ ایک نوزائیدہ ملک کو چلانے کے لیے بیوروکریسی سے کام لیں ۔ اور یہی کام جمہوریت کی راہ پر مستقل رکاوٹ بن گیا۔ اسکندر مرزا کا کہنا تھا۔ پاکستان کے عوام اپنی نااہلیت اور جہالت کے سبب جمہوریت اور ملک چلانے کے قابل نہیں ۔ اور آپ غور کریں ۔ آج بھی یہی کہا جا رہا  ہے۔ اور آج بھی سول و خاکی بیوروکریسی عدلیہ کی مدد سے اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے  ہے۔ اور ایک اور نقطہ یہ سامنے آتا  ہے۔ کہ اپنے مربیوں اور احسان کرنے والوں کو دھوکہ دیا گیا اور موقع پرستی اور طالع آزمائی کا بد ترین مظاہرہ کیا گیا۔ اور بدلے میں امریکہ کی خدمت کی گئ۔
باقی آئندہ

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply