کیا بھارت میں مکافات عمل ہو رہا ہے؟۔۔علی بخاری

کرونا کی حالیہ لہر پر لکھنے کے لیے کئی دوستوں نے حکم دیا ،لیکن ہر ایک کو یہی کہا کہ کیا لکھیں، کیوں لکھیں اور کیسے لکھیں کہ جس سے کسی اربابِ اختیار کے کان پر جوں رینگ جائے، جب میں سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کی پوسٹس پڑھتا ہوں، جو بھارتی عوام کی تصاویر کے ساتھ شیئر کی جاتیں ہیں اور ان میں لکھا ہوتا کہ یہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی ظلم کا بدلہ ہے، تو دل کانپ جاتا ہے کہ ہم کیسے ایک مشترکہ عالمی خطرے کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے  کے لئے استعمال کر لیتے ہیں، ابھی کل ہی ایک صاحب سے اسی زاویے پر بات ہو رہی تھی اور انکا موقف بھی یہی تھا کہ کشمیر میں بھارت نے لاک ڈاؤن لگایا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارت سمیت پوری دنیا لاک ڈاؤن کا شکار ہو گئی، جس طرح بھارتی فوج کشمیریوں کو سڑکوں پر مارتی ہے اسی طرح کرونا بھارت کی عوام کو سڑکوں پر مار رہا ہے یہ دراصل مکافاتِ عمل ہے۔

یہ باتیں سُن کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ کرونا کی بگڑتی صورتحال سمیت اس ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یا ہوتا آیا ہے وہ اسی سوچ کی مرہون منت ہے 2005 میں زلزلہ آیا تو ہم نے سنا کہ پشاور میں لڑکے نے لڑکے سے شادی کی تھی اس لیے زلزلہ آیا، اسی زلزلے میں اسلام آباد کا مارگلہ ٹاور گرا تو معلوم ہوا کہ پورے اسلام آباد میں صرف ایک مارگلہ ٹارو گرنےکی وجہ یہ تھی کہ اس میں کئی مرد و زن برہنہ حالت میں سوئے ہوئے تھے، ہمارے ملک میں اکثر قدرتی آفات عورتوں کے چھوٹے کپڑوں اور فحاشی کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں، یہ رویہ میرے نزدیک ایک ہارے ہوئے معاشرے کے ان لوگوں کی کہانی ہے جن کو لڑنا سکھایا ہی نہیں گیا، جو عزم و ہمت کی کسی بھی داستان سے واقف نہیں ہیں، جن کے نزدیک انسانی زندگی اور اسکی ترقی کسی علم اور جدوجہد کا نہیں بلکہ کسی دیومالائی داستان کا پہلے سے طے شدہ معاملہ ہے، ایسی ذہنیت رکھنے والے اپنی ہار کا ملبہ جب کسی اور پر نہیں ڈال پاتے تو اس کی فاطر العقل اور دیو مالائی تعبیر گھڑ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں جس سے کچھ اور ہو نہ ہو انکی طبیعت کچھ دیر کے لیے ضرور بحال ہو جاتی ہے اور وہ کم از کم اپنے آپ کو یہ یقین دلا لیتے ہیں کہ اس انہونی میں کم از کم انکا کوئی قصور نہیں ہے اور ساتھ کے ساتھ ایک ایسی توجیہہ بھی انکو میسر آ جاتی ہے کہ جو انکو مطمئن کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

اگر میں اپنے دوستوں کی بات مان لوں تو میرے شریر دماغ میں سوالات کا سیلاب امڈ آتا ہے مثلاً اگر بھارت میں کرونا اس وجہ سے بے قابو ہوا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں ظلم کی انتہا کر دی اور زبردستی اسکو اپنا حصہ بنا لیا تو یہی کچھ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا شاید اس سے بھی برا؟؟ آج کی اطلاعات کے مطابق اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ کرونا کیسز بہاولپور جیسے بے ضرر شہر میں ہیں اب بہاولپوریوں نے کس پر کیا ظلم کیا معلوم ہونا باقی ہے۔

اسی طرح مردان وہ پہلا شہر ہے کہ جہاں اس موجودہ لہر کے بعد پہلا لاک ڈاؤن لگا ہے کیا یہ بھی کسی عذاب کی پیشین گوئی ہے یا اس لاک ڈاؤن کی تعبیر کچھ اور ہے؟؟

اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بعض شہروں کے مخصوص علاقوں میں جہاں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جا رہا ہے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان علاقوں میں آخر ایسے کون سے لوگ رہائش پذیر ہیں کہ جن کے اعمال ان علاقوں میں عذاب کا باعث بن رہے ہیں؟؟ ملتان کے ایک انتہائی کم ترقی یافتہ علاقے سورج میانی کہ جہاں غریب لوگ رہتے ہیں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگا تھا تو مجھے کم از کم یہ یقین آیا کہ کرونا عورتوں کے چھوٹے کپڑوں کی بدولت نہیں پھیل رہا کیونکہ سورج میانی کے علاقے سے دور دور تک ایسی کسی عورت کہ جس نے چھوٹے چھوٹے کپڑے پہنے ہوں گزر تک نہیں ہوتا۔

اور اگر بات یہی رکھنی ہے تو ہم بھی کچھ ایسے خطے جانتے  ہیں، کہ جو کاغذات میں تو آزاد لکھے جاتے ہیں لیکن مقبوضہ ہیں کیا ہم سعودی عرب اور ایران میں موجود ہمارے مقدسات کا بند ہوجانا گذشتہ سال اور اس سال حج کے معاملات کو سعودی عرب اور ایران کے کشیدگی سے جوڑ سکتے ہیں؟۔ یقیناً نہیں، یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی، اسی طرح اگر کوئی یمن کا باشندہ کہے کہ سعودی عرب جو تقریباً ایک سال سے بند ہے یہ سب اس بمباری کا عذاب ہے جو سعودی عرب اور اسکے “وفادار سپہ سالار” یمن پر کر رہے ہیں تو کیا یہ توجیہہ ہمارے دوستوں کے لیے قابلِ قبول ہوگی؟؟ اگر کوئی بلوچی باشندہ پنجاب کی موجودہ صورتحال کو بلوچیوں کے ساتھ گزشتہ ستر سالہ سلوک کا قدرتی انتقام کہے تو کیا دوستوں کو اس بات میں وزن معلوم ہوگا؟؟

میں نے ایک سال پہلے لاک ڈاؤن کے دوران ایک آرٹیکل لکھا تھا جس کا ٹائٹل تھا کہ “کیا کرونا کے اگلے سرے پر سوشلسٹ انقلاب کھڑا ہے” جس میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ کرونا نے جو تباہی امیر ملکوں میں مچائی ہے وہ غریب ملکوں میں نہیں مچائی اور دنیا میں اس وبا کا شور زیادہ اس لیے مچ گیا کیونکہ اس بار اس وبا سے امیر ملکوں میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں پورے افریقہ میں پازیٹو کیسز کی اب تک کی کُل تعداد 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ اکیلے ترکی میں اب تک کے کرونا کیسز کی تعداد 46 لاکھ سے اوپر ہے اگر بات کریں امریکہ کی تو وہاں تین کروڑ سے اوپر لوگ اب تک کرونا کا شکار ہوئے اسی طرح دوسرے نمبر پر بھارت ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد روس، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کی ایک فہرست ہے جو اس وبا کا زیادہ شکار ہوئی ہے اب اگر ان اعدادوشمار کی بنیاد پر کوئی دوست یہ نتیجہ نکال لے کہ کرونا غریب کا ہمدرد ہے اور امیر کے خلاف تو اس پر صرف ہنسا جا سکتا ہے۔

میرے نزدیک ہر معاملے کو مذہبی عینک سے دیکھنا اور اس کی دیومالائی تعبیر گھڑ لینا ایک غیر صحت مندانہ رویہ ہے اگر آپ کو ایک بیماری کا سامنا ہے تو آپکو طبیب کی بات ماننی چاہیے نہ کہ درزی کی، میں ان علما  کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے Sop’s پر عمل نہ کرنے کو مطلقاً حرام قرار دیا اور لوگوں کو احتیاط کی تلقین کی۔۔

اس وقت خصوصاً بھارت میں جو صورت حال ہے وہ بہت تشویش ناک اور سبق انگیز ہے بات دہرانا اچھا نہیں لگتا لیکن اس صورت حال کو دیکھنے کے بعد بھی بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی جنگی جنون میں مبتلا حکومتیں اگر یہ نہیں سوچتیں کہ جتنا بجٹ ہم نے ڈیفنس پر خرچ کیا اگر اس کا پچیس فیصد بھی صحت پر خرچ کیا ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی تو یقین کیجئے ہم اس وقت انسانوں کے نہیں درندوں کے رحم و کرم پر ہیں ، حد تو یہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ لہر کے بعد سے لے کر اب تک صرف 122 وینٹی لیٹر امپورٹ کئے ملتان میں سرکاری اور پرائیوٹ وینٹی لیٹر ملا کر انکی تعداد پچاس سے کم ہے، سوال تو یہ ہے کہ پہلی اور دوسری لہر کے بعد ہمارے اربابِ اختیار نے کیا تیاری کی یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن جو معلوم ہے وہ یہ کہ دونوں ملکوں انڈیا اور پاکستان نے اسی دوران میزائیلوں کے کامیاب تجربے کیے، باڈر پر کھڑے ان فوجیوں کہ جو دن بھر ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں شام ہوتے ہی اونچی اونچی آوازیں نکالیں زور زور سے ٹانگیں زمین پر ماریں اور دونوں ممالک کی تماش بین عوام نے تالیاں بجائیں اور ایک دوسرے کو کرونا منتقل کر کے گھر چلے گئے۔۔کل عمران خان فرما رہے تھے کہ لوگ اس وبا کو سیریس نہیں لے رہے اور کل رات تک ملتان کا ہر لائٹ پول عمران خان کی ملتان آمد کے پوسٹرز سے بھر چکا تھا ہر طرف عمران خان کی ملتان آمد کی خوش کن اطلاع تھی آج ایک جم غفیر نے انقلاب کی علامت عمران خان کو تقریر سنی کسان کو کسان کارڈ ملا اور اسکی تقدیر بدل گئی، ملتان کا ہر دہاڑی باز عمران خان سے ملنے کا خواہش مند تھا لیکن وزیر اعظم کیا کریں کہ لوگ سیریس ہی نہیں لیتے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں صرف ایک بات کہ جو لوگ بھارت کی سڑکوں پہ منہ پر ماسک لگائے سانس لینے کی جدوجہد کر رہے ہیں وہ میرے اور آپ جیسے ہیں شاید ہم سے بھی گئے گزرے ان معصوم لوگوں کا کشمیر میں ہونے والے ظلم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ بھارتی عوام اپنی حکومت پر زور ڈالے کہ وہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ختم کرے تو بھائی عرض ہے کہ یہ وہ عوام ہے کہ جس کی آواز مودی کے چپڑاسی کے چپڑاسی تک بھی نہیں پہنچتی لہٰذا مہربانی کیجیے اگر ہمدردی نہیں کر سکتے تو انکی اس کیفیت پر کم از کم خوشی کا اظہار نہ کیجیے کیونکہ جن حکمرانوں کا انکو سامنا ہے ان سے بدتر آپ کی گردن پر پشت سے مسلط ہیں اور پشت پر مسلط شخص کا چہرہ اکثر نہ معلوم ہی رہتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply