• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دعوت دینے سے پہلے ماضی پر بھی غور کر لیا کریں۔۔۔عمار کاظمی/دوسرا حصہ

دعوت دینے سے پہلے ماضی پر بھی غور کر لیا کریں۔۔۔عمار کاظمی/دوسرا حصہ

دعوت دینے سے پہلے ماضی پر بھی غورکر لیا کریں۔۔۔عمار کاظمی

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ریحام خان عمران خان سے شادی سے پہلے میڈیا کی خاتون تھیں، وہ شادی سے پہلےجتنی آزاد خاتون تھیں شادی کے دوران اتنی نہیں رہی تھیں۔طلاق کے فوری بعد ان پر جو تحریکِ انصاف کے کارکنان کی طرف سے( خان کی محبت میں خان کی مرضی کے بغیر) جتنی گندی زبان استعمال کی گئی اسکی مثال نہیں ملتی۔ عائشہ گلا لئی ریحام کے مقابلے میں ظاہری طور پر زیادہ سادہ اور مشرقی نظر آنے والی لڑکی تھی۔ مگر اسکے لیے بھی (اسکے عمران خان پر فحش ٹیکسٹ میسیجز الزامات سامنے آنے کے بعد)کم و بیش ویسی ہی زبان استعمال کی گئی جیسی ریحام خان کے لیے کی گئی تھی۔ عندلیب عباس کی طرف سے جوان شادی شدہ خواتین ٹیچرزکو خان سے ملاقات کروانے اور سیاست میں حصہ لینے کیساتھ ٹکٹ کا لالچ دینے والے میرےمختصر آرٹیکل پر جو اعتراضات سامنے آ رہے ہیں ان میں خواتین کی طرف سے پہلا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ’’اگر عمران بُرا ہے تو خواتین اس  سےملنے ہی کیوں جاتی ہیں؟ اور یہ کہ ’’ریحام خان نے اس سے شادی ہی کیوں کی تھی؟‘‘ اور ’’جو عمران نے اسے طلاق دے دی تو کیا برا کیا، وہ بھی تو ایسی ہی تھی‘‘۔

سچ کہتے ہیں ’’عورت ہی عورت کی بدترین دشمن ہے‘‘۔ اور اسی لیے پاکستان میں موجود فیمن ازم جعلی محسوس ہوتا ہے۔برا مت مانئے گا ، غیر معیاری زبان استعمال کرنے کی عادت نہیں ہے مگر کہیں ایکسپریشن ،دلیل اور موضوع کی ڈیمانڈ اسقدر بڑھ جاتی ہے کہ بات سمجھانے کے لیےبد ترین مثالیں بھی سامنے رکھنی پڑ جاتی ہیں۔ نہ منٹو سا عظیم افسانہ نگار ہوں نہ شیخ رشید اور حنیف عباسی سا مقرر کہ ہر جگہ ارادۃً ایسی سستی زبان استعمال کروں۔ چھوٹے بھائی انعام رانا نے درخواست کی تھی کہ ’’ویسے عمار بھائی یہ مضمون اور اس کا انداز واقعی آپ کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔ ہاں یہ درست ہے کہ میں نے ایسی زبان کبھی اپنے کسی آرٹیکل میں پہلے کبھی استعمال نہیں کی تھی تاہم یہ قسم بھی نہیں تھی کہ ایسی زبان کبھی استعمال نہیں ہوگی۔ بات زبان کی نہیں صرف اور صرف سچائی کی ہے، منٹوں بننے کی خواہش کبھی نہیں رہی مگر سچ کو اسکی اصل حالت اور کیفیت میں لوگوں تک پہنچانے کا عہد خود سے ضرور کر رکھا ہے، پھر چاہیے سچ کپڑے پہنے ہو یا بغیر کپڑوں کے۔

خیر بات لکھتا چلا جاؤں گا اور تحریر طویل ہوتی چلی جائے گی چنانچہ جو گندی اور بد ترین مثالوں کے حوالے کی مجبوری کا اظہار کیا تھا اس حوالے سے پہلے میری بنائی ایک بد ترین مثال سن لیجیے پھر آگے چلتے ہیں’’ آپ ریڈ لائٹ ایریا سے لڑکی بیاہ کر لے آئیں اور اسےفاحشہ کہہ کر طلاق دے دیں‘‘ لعنت ہے ایسے معاشرے پر۔ یعنی آپکے پاس دلیل کیا ہے ریحام خان کی طلاق یا اس پر استعمال کی گئی گندی زبان کو جسٹیفائی کرنے کے لیے؟ (واضع کرتا چلوں کہ مذکورہ بالا مثال کا ریحام بی بی سے کوئی واستہ نہیں، یہ محض ایک جرنلائزڈاور بد ترین مثال ہے جو لوگوں کی عقلوں اور منافقت سے پردہ اٹھانے کے لیے یہاں استعمال کی جا رہی ہے)۔ گویااپنی حرکتوں پر شرمندگی کی بجائےالٹا جواب میں ہمیں عورت کے احترام کا درس دیا جا رہا ہے۔ابھی کچھ اور حقیقت اور تحریک انصاف والوں کی روشن خیالی بھی سن لیجیے کہ عورت کا کتنا احترام انکے کارکنان میں پایا جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ کراچی میں گزرا، ایک جگہ ڈنر پرتحریک انصاف کراچی کے ایک نامور اور ایکٹو کارکن سے تعارف ہوا۔ لاہور کےصحافی کا سنتے ہی بولے، کاظمی صاحب آپ لاہور میں تحریک انصاف کو سپورٹ کریں۔ ادب سے مختصر ترین گزارش کی ’’وجہ؟‘‘ بولے ’’دیکھیں یہ زرداری یہ میاں صاحبان کس قدر کرپٹ ہیں، ملک کو لوٹ کر کھا گئے، ہمیں خان جیسا ایماندار لیڈر چاہیے جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہ ہو‘‘۔ بڑے بھائی ساتھ تھے تو ذراٹالتےہوئے مذاق میں کہہ دیا کہ ، خان روز تو کوئی نہ کوئی نویں چول مار دیتا ہے سپورٹ کیسے کریں؟(جبکہ مجھ ناچیز کے لیے کسی سیاستدان کی سپورٹ یا بے جامخالفت کسی صورت بھی ممکن نہیں، کوئی فرشتہ ہو یا شیطان کسی صحافی کو اس سے کیا لینا، ہمیں تو بس اسکا سچ جو نظر آ رہا ہے یا ہم نے دیکھا وہ آگے پہنچانا ہے)۔خیر تحریک انصاف کے صاحب بضد رہے کہ آپ عمران کو سپورٹ کریں۔سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم صحافی پارٹی نہیں ہو سکتے، نہ ہی ہم سیاسی کارکن ہیں کہ کسی کو سپورٹ کرتے پھریں۔مگر وہ نہ مانیں۔ چنانچہ تنگ آ کر سوال پوچھ لیا کہ ’’کیا آپکی نظر میں کرپشن صرف مالی کرپشن ہوتی ہے؟‘‘ تو سامنے سے جواب آیا ’’یار چھوڑیں ،ہمیں اسکے ذاتی کردار سے کیا لینا دینا ،  جتنی چاہے شادیاں کر لے،لڑکیاں ۔۔۔۔ ہمیں بس اس ملک سے کرپشن ختم کرنی ہے، دیکھیں غریب عوام کا کیا حال ہو چکا ہے‘‘۔ خوش آئند بات تھی کہ ایک کروڑ بلکہ ارب پتی شخص ہائی جینٹری کی ایک مست ولایتی ڈنرپارٹی میں ہمیں غریب جنتا کا بتا رہا تھا۔

عمران کی تیسری شادی پر ایک کالم میں اس سے ملتی جلتی تفصیل اورایسے سوالوں کے جواب پہلے ہی لکھ چکا ہوں جو تحریک انصاف کے لوگوں میں میرے آرٹیکل پر اٹھائے۔ چلیے یاد دہانی کے لیے چند باتیں، چند اہم نقاط دہرائے دیتا ہوں۔ ایک ’’عمران کی تیسری شادی جو پیرنی سے ہوئی جسکے بارے میں قندیل بلوچ دو ہزار چودہ میں خبر بریک کر چکی تھی کہ خان صاحب ڈی ایچ اے لاہور کی ایک روحانی شخصیت سے آجکل مل رہے ہیں۔تو یہ سوال بھی بے محل رہا کہ عمران نے کسی کو طلاق دلوا کر شادی نہیں کی۔ جو طلاق دلوا کر شادی کی گئی وہ ہمارے لیے کیا دنیا کے کسی بھی جدید معاشرے کے لیے ’’بریچ آف ٹرسٹ کی حیثیت رکھتی تھی‘‘ ۔وہ عمل شاید دنیا کے کسی لبرل معاشرے میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہوگا۔ یعنی آپ ایک فیملی کو دوست بن کر ملتے رہے اور آخر میں اس فیملی کو ختم کروا کے آپ نے جوان بچوں کی ماں سے دو یا تین سال بعد شادی کر لی۔آپ سب خود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ لوگ اپنے کسی دوست کی بہن بیٹی یا بہو پر ایسی نظر رکھ سکتے ہیں؟

کہہ دینا بڑا ٓسان ہے کہ وہ انکی ذاتی زندگی ہے۔ مگر پبلک فگرز کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو وہ انکے بیڈ روزم تک محدود ہوتی ہے، عمران لیڈر ہے، یوتھ اسے فالوں کرتی ہے، اس نے اپنی تیسری شادی سے اس معاشرے اور اسکی یوتھ کو کیا پیغام دیا؟یہی کہ پینسٹھ برس  کی عمر میں بھی آپ قابل ِ اعتبار نہ ہوں؟ آپ جس کسی دوست عزیز سے ملنے جائیں وہاں انکی خواتین تاڑ لیں؟ چھوٹا بھائی انعام کہتا ہے ’’ مرشد اک قومی لیڈر ہے۔ اسکی شوقین مزاجی اپنی جگہ ،لیکن اس کے بارے میں الفاظ کا چناؤ ذرا بہتر ہوتا تو دوستو کے نازک دل نا لرزتے‘‘۔

بھائی نازک الفاظ اس نازک صورتحال پر کہاں سے لائیں؟ اس بار عمران پربراہ راست تنقید کی بجائےتحریکِ انصاف کے لوگوں کو سمجھنانے کی کوشش کی تھی کہ ابھی تین چار ماہ پہلے ہی عمران نے ذاتی زندگی کی بنیاد اور بہانے ایک بڑی سیاسی غلطی کی تھی کہ جس پر خود تحریک انصاف کی اکثریت کے  پاس اس گھسی پٹی توجیح کے سوا کچھ کہنے کونہیں تھا کہ یہ اسکی ذاتی زندگی ہے۔جبکہ اسکے بعد کے دو یا تین جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے انکے نتائج اس بات کے شاہد ہیں کہ پنجاب میں خاص طور پر اس ’’بریچ آف ٹرسٹ‘‘ والی حرکت کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ یہاں لوگ صدیوں سے دوستوں عزیزواقارب کے گھروں میں نگاہیں نیچی کر کے ،انکی بہن بیٹی بہو کو اپنی بہن بیٹی بہو سمجھ کر داخل ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ لوگ قومی لیڈر کی اس حرکت کو معمول سمجھ لیتے۔ ارے بھائی یہ ہندوستان اور اسکا پنجاب ہے۔ یہ صدیوں پرانی روایات ہیں۔ پنجابی ذاتی زندگیوں میں جتنے مرضی کھُلے ڈُلے عیاشی پسند ہوں ، خواہ وہ چھٹے ہوئے بدمعاش ہی کیوں نہ ہوں،انکی  اکثریت ان چند بنیادی روایات کو اپنے ذہنوں میں ضرور رکھتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم خود بھی روایتی سیاسی جماعتوں سے تنگ تھے تو بارہا یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ خان پینسٹھ برس کی عمر میں اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرے اور اگر نہیں تو کم از کم انتخابات تک ہی کنٹرول کر لے کہ پہلے ہی جمائمہ سے ریحام اور پھر گلا لئی تک الزامات اور ناکام تجربات کا ا یک طویل سلسلہ ہے۔ لیڈر عوام کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، لیتے نہیں۔ مگر جواب کیا ہوتا ہے’’شادی کرنا جرم تو نہیں‘‘ او بھائی نہ یہ حرم میں سینکڑوں لونڈیاں رکھنے کا دور ہے نہ درجنوں بیویاں۔ ابھی میں عمران کی جوانی کے لا تعداد قصوں ،سیتا وائٹ کے لگائے الزامات نہیں لکھ رہا کہ مقصد گند اچھالنا یا الزامات پر گفتگو کرنا نہیں تھا۔ البتہ اتنا سمجھانے کی کوشش پہلے بھی کی تھی اور اب بھی کر رہا ہوں کہ آپ خان کو کسی کی بہو بیٹی یا بہن سے ملوانے اور ٹکٹ کی باتیں کرتے وقت خان کا ماضی ضرور ذہن میں رکھا کریں ، ایسے ماضی کیساتھ یہ دوسروں کی زندگی میں مداخلت ہی متصور ہوتی ہے۔اور کچھ نہیں تو تین ماہ پہلے کی پیرنی کی شادی ہی یاد کر لیا کریں۔

مجھے اپنے لکھے گزشتہ کالم کے الفاظ پر کوئی افسو س نہیں اور یہی سچ ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے لیڈران کی ریپو قطاً ایسی نہیں کہ کوئی شریف آدمی انھیں گھر پر بلائے۔ چھوٹے میاں صاحب پر بھی کسی ڈی پی او کی بیوی ہتھیانے کا الزام ہے، بڑے میاں صاحب پر طاہرہ سید کو طلاق دلوانے کا الزام تھا اور پیرنی تو سب کے سامنے اور تازہ ترین واقعہ ہے۔ آصف زرداری جو اپنی پنجاب دشمنی اور سازشی فطرت کی وجہ سے آجکل مجھے سب سے زیادہ نا پسند ہے اور سدا سے ان سب سے زیادہ بدنام ہے، ان سے تو وہی بہتر نکلا کہ اس پر ایسےتمام الزامات آج تک الزام ہی ہیں، ثابت کچھ بھی نہیں ہوا۔عمران سے کوئی ذاتی عداوت یا بغض نہیں ،لیکن جب آپ نواز ،زرداری پر کرپشن چارجز کے بعد ’’لیڈ بائی ایگزیمپل‘‘جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو پھر ذہن میں رہنا چاہیے کہ ’’ اگر مالی طور پر بدعنوان شخص لیڈر نہیں ہو سکتا تو کردار کے ڈھیلے شخص کو بھی لیڈر نہیں ہونا چاہیے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپکو خواتین کو خان سے ملوانے کی سوچ اسی دن ترک کر دینی چاہیے تھی جب خان نے ملنے والی روحانی شخصیت اور خاور مانیکا کی بیوی کو طلاق دلوا کر شادی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اور تحریک انصاف کے دوست یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ پاکستان کا ہر مرد خاور مانیکا نہیں ہوسکتا۔اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے، جب آپکو معلوم ہے کہ آپکے لیڈر میں کچھ کمزوریاں ہیں تو آپ اسکے اس پہلو کی طرف جاتے ہی کیوں ہیں؟کیوں کسی کو موقع  دیتے ہیں کہ وہ آپکو آپکا ماضی یاد دلائے؟الیکشن مہم چلانے اور ووٹ مانگنے کے لاکھوں طریقے ہو سکتے ہیں، آپ خواتین کو تحریکِ انصاف کا وومن ونگ جوائن کرنے کا کہہ سکتی ہیں، خان سے خواتین کی ملاقات کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ وہ تمام عمر سکینڈلز میں گھرا رہا ہے؟اپنی نہیں تو دوسروں کی  عزت کا خیال کریں۔ آج آپ دیانتداری سے ایک سروے کروا لیں تحریک انصاف کے ہی پچاس فیصد مرد اپنی خواتین کو خان سےملوانے کی حق میں نہیں ہونگے۔ آپ درست مائنڈ کرتے ہیں کہ قومی لیڈر ہے الفاظ کا چناؤ احتیاط سے کرنا چاہیے، تو عرض بلکہ سوال یہ ہے کہ میں ان تلخ حقائق پر لفظوں کی منافق اخلاقیات کا کتنا پردہ ڈال سکتا تھا؟ آپ خود ہی تھوڑی احتیاط کر لیا کیجیے۔عندلیب عباس کو معلوم ہونا چاہیے کہ یوسف صلاح الدین کی بیوی انبساط یوسف نے جو اپنے میاں اوران لوگوں پر جو الزام لگائے تھےوہ یہی تھے کہ وہ متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کو پروموٹ کرنے کا لالچ دیکر اپنی حویلی میں لاتے اور پھر انکی عزتیں خراب ہوتیں!

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply