قبیلہ پرستی اور اسلام(حصہ اوّل)۔۔ادریس آزاد

چیزوں اور تصورات پر غور کرنے کا اپنا اپنا انداز ہوتاہے۔ مجھے اپنی سمجھ کے مطابق ہمیشہ سے یہ لگتا آیا ہے کہ اسلام میں قبیلہ پرستی کو حد سے زیادہ بُری نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ اپنے اِسی ایک خیال کی بِنا پر آج سے کوئی پینتیس سال پہلے میں نے علامہ اقبالؒ کے نظریۂ قومیت کو مولانا حسین احمد مدنیؒ کے نظریۂ قومیت پر ترجیح دی تھی، جس پر میں آج تک قائم ہوں۔ پچھلے دنوں میں ایک کتاب لکھ رہا تھا، جس میں ایک جگہ مجھے خطباتِ اقبال میں استعمال کی گئی ایک انگریزی ترکیب ’’ارتھ رُوٹیڈنیس (Earth-rootedness) کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے سوچا گوگل میں لکھ کر دیکھتاہوں کہ یہ اصطلاح علامہ اقبال سے پہلے کس کس نے استعمال کی ہے۔
گوگل نے مجھے بتایا کہ علامہ اقبال سے پہلے تو یہ اصطلاح کسی نے استعمال نہیں کی، لیکن اپنی کتابوں میں ایک جگہ یہ اصطلاح شاتمِ رسول سلمان رشدی نے استعمال کی ہے۔ مجھے تجسس ہوا کہ رُشدی کو کیا ضرورت پڑی ہوگی، ایسی کسی اصطلاح کو استعمال کرنے کی؟ جب میں نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ رشدی نے یہ ترکیب ہجرت کرنے والوں کے تحقیر و تضحیک کے باب میں استعمال کی۔ اس نے لکھا کہ جو لوگ ارتھ روٹیڈنیس کا شکار نہیں ہوسکتے، وہ مزاجاً مہاجر ہوتے ہیں اور ہجرت کرنے والوں کی یہ فطرت ہے کہ زمین کے کسی ٹکڑے کو اپنا گھر کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ وہ جہاں جاتے ہیں اور جہاں رہتے ہیں اس جگہ کو پرائی جگہ سمجھتے ہوئے اس کا ضروری احترام نہیں کرتے۔ وہ اس جگہ کے لوگوں سے کبھی وفادار نہیں ہوسکتے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری بات رشدی نے لکھی ہوئی تھی۔
شاتمِ رسول کی فطرت کو جانتے ہوئے میں نے اندازہ لگالیا کہ اس اقتباس میں بھی رشدی کے پشِ نظر رسول ِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا ہی مقصد تھا۔ اس نے جو مضمون باندھا اس کا مرکزی خیال کچھ یہ تھا کہ انسان کو اپنی زمین، اپنی مٹی، اپنے خاندان اور اپنے قبیلہ کے ساتھ بہت مضبوط رشتے میں جُڑا ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسان کا یہ احساس کہ اس کا اس زمین پر ایک گھر ہے، اس کے رشتہ دار ہیں، اس کا خاندان ہے اور قبیلہ ہے، اُسے مضبوط، وفادار اور بہادر بنائے رکھتاہے۔ اس کے برعکس انسان جب اپنا وطن چھوڑ کر مہاجر ہوجاتاہے تو وہ جہاں جاتا ہے، وہاں کے عام لوگ چونکہ اسے کبھی قبول نہیں کرپاتے، اس لیے وہ وہاں کی مٹی کے ساتھ کبھی وفادار نہیں ہوسکتا۔
میں چھوٹا تھا تو دادا جان مجھے اکثر اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ مطلب، جب کبھی شہر سے باہر کہیں جانا ہوتا۔ ایک بار ہم فیصل آباد گئے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، بس اتنا یاد ہے کہ دادا جان کو بیڈ پر بستر لگا کر دیا گیا تھا اور مجھے فرش پر۔ صبح سویرے جب دادا جان شاید نماز کے لیے نکلے ہوئے تھے، میری آنکھ کھل گئی۔ دراصل میرے گلے میں کچھ مواد سا تھا۔ میں نے گلہ کھنکارا تو مواد تھوک کی صورت اختیار کرگیا۔ اب بسترسے نکل کر باہر جانا مجھے عذاب لگ رہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر دیکھا کہ میرا بستر کمرے کے کونے میں ہے۔ میں نے سوچا کونے کے پاس سے اگر قالین کو اُٹھا کر اس کے نیچے تھوک دیا جائےتو کسی کو پتہ نہیں چلےگا۔ سو میں نے یہ غلطی کردی۔ پھینکنے کو تو میں نے فقط ایک تھوک کسی کے ڈرائنگ روم کے قالین تلے چھپایا تھا لیکن وہ تھوک میرے دل پر ایسا گِرا کہ زندگی کا کوئی مہینہ شاید ایسا نہ گزرا ہو جب مجھے اپنی وہ حرکت یاد نہ آئی ہو، اور ندامت محسوس نہ ہوئی ہو۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ مجھے عمر بھر اس واقعے پر ہرپہلو سے غور کرنے کا موقع ملا۔ ہزاروں باتوں میں ایک بات، جو مجھ پر کھلی وہ یہ تھی کہ اگر میں اپنے گھر کے کسی کمرے میں ایسے لیٹا ہوا ہوتا تو کبھی قالین کے نیچے تھوک نہ چھپاتا۔
اپنا یہ واقعہ لکھ کر میں یہ بتانا چاہ رہاہوں کہ جب تک ہماری تربیت بہت اچھے طریقے سے نہ کی گئی ہو، ہم کسی اور کے گھر کو آسانی سے اپنا گھر نہیں سمجھ سکتے اور یہی وہ نکتہ تھا جو سلمان رشدی نے ارتھ روٹیڈنیس کی ترکیب استعمال کرکے واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ کوئی مہاجر کبھی کسی اور علاقے کو اپنا وطن نہیں سمجھ سکتا۔ اور یہ کہ اُس کا ایسا کرنا انسانی جبلت ہے۔
لیکن ہم جوں جوں قران پڑھتے اور رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام اس خیال (یعنی خاندان پرستی کا) پہلا اور آخری مخالف ہے۔ بلکہ مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ قران نے تمام انبیا کی آمد کا مقصد بھی یہی بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو قبیلہ پرستی کے بُت کی پوجا سے باز رکھنے کے لیے مبعوث فرمائے جاتے رہے۔
جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر سب سوار ہوگئے اور کشتی چلنے لگی تو حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا تو ابھی کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا۔ قران میں ہے کہ حضرت نوحؑ نے فوراً اللہ تعالیٰ سے ندا کی، کہ اے اللہ میرا بیٹا ڈوب رہاہے۔ لیکن اللہ نے نوحؑ کی ندا نہ سُنی۔ بلکہ جس قسم کے جواب سے نوازا، وہ گویا (میرے الفاظ میں) یوں کہنے کے برابر تھا کہ اے نوح! وہ تیرا بیٹا نہیں ہے، تیرے بیٹے تو وہ ہیں جو تیرے ساتھ کشتی پر سوار ہوچکے۔ بالفاظ دیگر تیرے نظریاتی بیٹے ہی تیرے بیٹے ہیں اور خون کے رشتے سے تیرا بیٹا، تیرا بیٹا نہیں ہے۔
اسی طرح مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا نابینا ہوجانا حقیقی نابینا ہوجانا نہیں تھا۔ بلکہ بیٹے کی محبت میں نابینا ہوجانا تھا۔ یعنی خداوند تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر کو یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ اولاد کی محبت یا خونی رشتوں سے محبت انسان کو (معرفتِ حق کے معاملے) میں نابینا کردیتی ہے۔
بنی اسرائیل کو اپنے خون پر بڑا ناز تھا اور اب تک ہے۔ میں اکثر کہا کرتاہوں، یہودیت کسی مذہب کا نام نہیں، بلکہ قبیلے کا نام ہے۔ یہی وجہ تھی اللہ تعالیٰ نے پئے درپئے انبیا کے ذریعے انہیں بار بار سمجھایا کہ تمہارا خون یا قبیلہ اللہ کی نظر میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قران میں اللہ سے کہا کہ یااللہ میری اولاد میں امام پیدا کرنا تو اللہ نے جواب میں کہا کہ اللہ ظالموں کے ساتھ عہد نہیں باندھا کرتا۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالٰی نے یہ کہا کہ تمہاری اولاد میں جو جو ظالم ہوگا اس کو امامت نہیں دی جاسکتی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے تو بہت ہی زیادہ ثابت ہوتاہے کہ انبیا کے ذریعے آنے والا اللہ پاک کا دین اپنے مرکزی خیال میں قبیلہ پرستی اور خاندانیت کے خلاف وارد ہوا تھا۔ میں ذاتی طورپر یہ سمجھتاہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی گردن پر جو چھری چلائی، وہ بات تمثیلی ہے اور اس میں یہ نصیحت تھی کہ اولاد کی محبت کو قربان کردو۔ باپ کی محبت بھی ابراہیم علیہ السلام نے ترک کی ان کا باپ آزر (بُت بنانے والا) تھا اور وہ آزر کے بنائے ہوئے بُتوں کو توڑا کرتے تھے۔ آزر کا بُت توڑنا باپ کا بُت توڑنا ہی تھا۔ بیوی اور بیٹوں کی محبت کے حوالے سے بھی انہیں بار بار یہ سبق دیا گیا کہ یہ خاندان ہے اور تمہارے مقاصد اس سے بہت بلند تر ہیں۔ خاندان، خون، قبیلہ، رشتے یہ سب زمینی پیوستگیاں ہیں۔ تم ان کے ساتھ جُڑ کر رہے تو مُشرک رہوگے۔ یہاں تک کہ نسل اور خاندان کی آلودگیوں کو سمجھ جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اشیائے کائنات کی حقیقت کو بھی اسی فلسفیانہ انداز میں خدا سے سمجھا جس انداز سے وہ خون اور قبیلے کی حقیقت سمجھتے آرہے تھے۔
کبھی کبھی اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھے بیٹھے، میں یہ بھی کہا کرتاہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ بنی اسرائیل قبیلہ پرستی سے باز نہیں آرہے تو اللہ نے ان میں ایک ایسا نبی بھیجا جس کا باپ تھا ہی نہیں۔ یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام۔ جو صرف اپنی ماں کا بیٹا تھا۔ لیکن انسان کی فطرت ایسی بگڑی ہوئی ہے کہ انہوں نے عیسیٰؑ کے اُٹھا لیے جانے کے بعد عیسی کو خدا کا ہی بیٹا بنا دیا اور خدا کو فادر کہتے کہتے مذہبی پیشوائیت کو بھی فادر کا لقب دے دیا۔ یوں گویا خاندان (جو کہ باپ سے چلتاہے) اور بھی زیادہ مضبوط بلکہ مقدس ادارہ بن گیا۔ اور یہ بات اس لیے سچ ہے کہ آپ اب تک عیسائی دنیا کا لٹریچر دیکھ لیں، مغرب کی فلمیں دیکھ لیں، ماسوائے فیملی (خاندان کی اوّلیت) کے ان کے پاس کوئی ایسی دولت نہیں جسے شرفِ قومیت کہا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مارٹن لوتھر نے جرات دلائی تو پورا یورپ تیزی کےساتھ نظریاتی رشتۂ مسیحیت سے ٹوٹ ٹوٹ کر رشتۂ خاندانیت میں گروہ در گروہ جدا ہوتا چلا گیا۔ لوتھر کی تحریک کا یہ نتیجہ کہ اس نے اہلِ مغرب کو قبیلہ پرست بنادیا تھا، بالآخر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ساڑھے سات کروڑ انسانوں کی ہلاکت پر منتج ہوکر بھی ختم نہ ہوسکا، بلکہ وقت کےساتھ اور زیادہ ارتقاکرگیا۔ اقبال اس حقیقت کو محسوس کرچکے تھے اس لیے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو رشتۂ اسلام میں جُڑے رہنے کا مشورہ دیا اور کانگریس کے علما کی یہ دعوت قبول نہ کی کہ ہم ہندوستان کی سرزمین کواپنے آباؤ اجداد کی وراثت سمجھ کر اس کے ساتھ اپنی قومیت کو وابستہ کریں۔ تھینکس ٹُو اقبال۔
رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی چل بسے تھے۔ دادا بھی بچپن میں چل بسے۔ چنانچہ آپ کے لیے آباؤ اجداد کا وہ رعب اور طنطنہ ایامِ تربیت میں بھی آپ کے دل کو متاثر نہ کرسکا، جو عام طورپر بڑے خاندانوں میں رہنے والوں کی جبلی مجبوری ہوتا ہے۔ پھر رسول اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نرینہ اولاد فوت ہوتی رہی۔ اِس سے یہ ہوا کہ رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاندان کسی بیٹے سے آگے نہ چل سکا۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے چلنے والا خاندان جسے ہم آج سادات کہتے ہیں، معجزانہ طورپر کبھی کسی باقاعدہ قبیلہ کی صورت اختیار ہی نہ کرسکا۔ سادات ہمیشہ موجود رہے لیکن عربوں، پٹھانوں، بلوچوں، انگریزوں، ڈینِشوں وغیرہ کی طرح سے قبیلہ بن کر نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشترکہ طورپر پھیلی ہوئی ایک ایسی قوم کے طور پر، جس کی پہچان میں شجرہ نسب کی بجائے اخلاق، سچائی اور حسن ِ عمل کو معیار رکھا گیا۔ میری ایک کتاب میں سادات کی فضیلت پر پورا ایک باب ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments