• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گلگت میں بسین اور نوپورہ کی تہذیبی جھلک اور بدھ عقیدت مندوں کے شاہکار۔۔۔سلمٰی اعوان

گلگت میں بسین اور نوپورہ کی تہذیبی جھلک اور بدھ عقیدت مندوں کے شاہکار۔۔۔سلمٰی اعوان

دن کا پروگرام میں نے اپنی مرضی سے ترتیب دیا۔سرفہرست کار گاہ نالہ کی سیر تھی۔ شفقت نے چپ چاپ پیچھے چلنے میں عافیت خیال کی۔
ذرا بھی انتظار کی زحمت نہیں کرنا پڑی۔ سڑک پر قدم رکھے اور ویگن نے رک کر دروازے کھول دئیے۔ ڈرائیور لڑکے سے بات کی۔ اس نے جواب میں کہا۔ جوبلی ہوٹل سے آپ کے اُوپر جانے کا بندوبست ہو جائے گا۔
مطمئن ہو کر میں نے باہر جھانکا۔ گندم کے کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کو دیکھا۔ یادگار چوک پر نظر پڑی۔ بازار کا تھوڑا سا نظارہ ہوا اور جوبلی ہوٹل آگیا۔
کرایے وغیرہ کے معاملے میں ذرا چخ چخ نہیں ہوئی۔ سوزوکی ڈرائیور نے نہایت معقول دام مانگے تھے۔
ڈرائیور نے گاڑی مغرب کی طرف موڑتے ہوئے میری طرف دیکھا تھا کیونکہ میں نے کہا تھا
”یہ تو پنیال روڈ ہے“۔
”بیسن چلنا ہے۔ پہلے نو پورہ کابت دیکھئے۔ ایسی نادر اور تاریخی شے آپ نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ میں نے مصر میں ابوالہول کا بت دیکھا ہے۔ دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ اے کاش اہرام مصر کو دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک قرار دینے والوں نے اسے بھی دیکھا ہوتا۔
میں نے حیرت سے ا سکی طرف دیکھا۔
”تم مصر کس سلسلے میں گئے تھے“۔
اور ہنستے ہوئے وہ بولا۔
”اسی پیٹ کے چکر میں۔ سارا مشرق وسطی روند ڈالا ہے“۔
”خوب۔ میں بھی ہنسی۔ تب تو تمہاری معیت میں اس سیر کا لطف دو چند ہو جائے گا“۔
کار گاہ نالے کو چیختے دھاڑتے دیکھ کر جانے مجھے درد زہ میں مبتلا ماں کیوں یاد آئی تھی؟ یہ پراسرار سا نالہ دوڈھائی سو میل کی دوری سے بلند و بالا پہاڑوں کے سینے پر مونگ دلتا اتراتا’اٹھلاتا ’مار دھاڑ کر تا یہاں پہنچتا ہے۔ پھر کچھ آگے جا کر دریائے گلگت میں مل جاتا ہے۔
میں نے ملحقہ پگڈنڈی کے کنارے پر کھڑے کھڑے اپنے جسم کے ہر مُوکو خوف و دہشت سے سنسناتے ہوئے محسوس کیاتھا۔ شفقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دو چار تھی۔ اس کے بہاؤ کا انداز کسی زخمی ناگ کا سا تھا جس کا بس نہیں چلتا کہ وہ حملہ آور کی کیسے تکا بوٹی کر ڈالے۔
میں ذرا آگے جانا چاہتی تھی ’مگر رک گئی کہ ڈرائیور نے کہا تھا۔
”یہ غلطی کبھی مت کریں کہ یہ کبھی کبھی ہزاروں ٹن پتھر اپنے ساتھ بہا لاتا ہے“۔
سچ تو یہ تھاکہ چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر ایسا بے ہنگم شور مچا رہا تھا کہ اب رگوں میں خون کا جماؤ محسوس ہونے لگا تھا۔
سردیوں میں اس کی کیفیت اس بوڑھی نائیکہ کی سی ہے جس کی جوانی بڑی ہنگامہ خیز گزری ہو اور بڑھاپے نے اسے کھڈے لین لگا دیا ہو۔ یہ بھی برف سے اٹا خاموش پڑا رہتا ہے۔ جو جی چاہے اس کے ساتھ کرو۔ کد کڑے لگاؤ بھاگو’ناچو۔
نالے کے دہانے پر ہی موڑ پر وہ تیس فٹ اونچی چٹان ہے جس پر گوتم بدھ کا نو فٹ لمبا مجسمہ تراشا گیا ہے۔ جسے مقامی زبان میں پیچھنی کے نام سے پکارتے ہیں۔
”یااللہ“۔ شفقت نے بے اختیار کہا تھا۔
”گوتم بدھ کے چاہنے والوں کو خراج تحسین پیش نہ کرنا کس قدر زیادتی ہو گی جنہوں نے جان ہتھیلیوں پر رکھ کر جانے کیسے دیو قامت مجسمے کو تراشا ہو گا۔
میں گُم سُم اس نرالے اور لافانی شاہکار پر نظریں جمائے سوچ رہی تھی۔
”کیسی ستم ظریفی ہے کہ ونچی کے لیو نارڈو کی چار سال کے عرصے میں بنائی گئی تاریخی تصویر ”مونا لیزا“ کے بارے میں دنیار طلب اللسان ہے۔ مائیکل اینجلو کی سنگ تراشی کی چاروں کھونٹ دھوم ہے۔ ساٹھ ستر گز پر پھیلا ہوا ابوالہول کا بت جس کے اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر فرق نہیں عالمگیر شہرت کا حامل ہے۔
لیکن پانی میں جھکی ہوئی ’اس بلند ترچھی اور نہایت خطرناک چٹان پر فنکارانہ چابکدستی سے پوری چٹان کی تراش خراش کر کے سنگ تراشی کا جو شاہکار وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم پاکستانی بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو باہر کی دنیا سے کیا توقع رکھیں؟ کہ وہ ہمارے وطن کے ایسے لازوال شاہکاروں کے بارے میں بھی کچھ جانیں ,ایسے مجسمے شمالی علاقوں میں کئی مقامات پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ نو پورہ کا یہ مجسمہ پرانے وقتوں میں شمال سے آنے والے زائرین کے لئے خیرو برکت اور خوش آئند علامت تصور کی جاتی تھی۔ بہرحال یہ بات حیران کن تھی کہ ایسی پر خطر جگہوں پر بنانے والوں نے کس حوصلے اور جرات سے کام کیا ہو گا؟ اس تپسیا میں جانے کتنے سال صرف ہوئے ہونگے؟
وہاں کھڑے کھڑے مجھے خیال آیا یہ بدھ مت کب ان دشوار گزار جگہوں پر پھیلا؟ ڈرائیور دنیا چشیدہ ضرور تھا پر تاریخ سے بے بہرہ تھا۔ میرے ذہن میں اٹھتے اس سوال کو مطمئن نہ کر سکا۔ بعد میں جب جناب عبدالحمید خاور کی تحریروں سے شناسائی ہوئی تو پتہ چلا کہ پانچویں صدی عیسوی میں ان علاقوں میں بدھ مذہب نے عروج پکڑا۔ اس زمانہ میں بے شمار خانقاہیں اور دارالعلوم قائم ہوئے۔ داریل میں عقیدت مندوں نے مہاتما بدھ کا ۴۹ فٹ طویل چوبی مجسمہ بنایا۔ اس پر سونے کی پتریاں چڑھائی  گئی  تھیں۔اس کی زیارت کے لئے دُور دُور سے چین اور تبت کے زائرین آتے تھے۔
بہرحال ماضی کی اس لافانی یادگار کے حضور کمال فن کی داد دئیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا تھا۔ آنکھیں ہنوز اس پر جمی ہوئی تھیں اور پیچھے ہٹنے سے انکاری تھیں۔ یہ اور بات تھی کہ سورج کی کرنیں سر کو جلائے جا رہی تھیں۔ لیکن اس کی پرواہ نہیں تھی۔
نوپورہ گاؤں سے متصل ذرا اوپر کھنڈرات نظر آتے ہیں۔1938ء میں محکمہ آثار قدیمہ کی ایک ٹیم کو چوبی صندوقوں میں بند بھوج پتر کے کئی ضخیم مخطوطات ملے تھے۔ بدھ کے مجسمے ’پکی اور خوبصورت ٹائلیوں سے مزین فرش  سے برآمد ہوئے۔ لیکن ان قدیم قومی یادگاروں کو سنبھال کر نہ رکھا گیا۔
نوپورہ کا قدیمی محل ”ہاپو کر“پہاڑوں پر بنا ہوا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لئے سڑک تھی۔ سڑک کے نشانات اب بھی نظر آتے ہیں۔ شاہی محل سرا کے ساتھ بڑے بڑے تالاب بھی بنے ہوئے تھے۔
”نوپورہ کی قدیم تہذیب۔“
رہے نا م اللہ کا‘ میں نے بہت لمبی سانس بھری تھی۔
ہر چیز کو فنا ہو جانا ہے۔ یہ وقت ’یہ لمحات ’ہم ’ہمارے وجود’ہماری باتیں ’آوازیں ’پتہ نہیں کہاں کہاں بکھر جائیں گی۔
کچھ فاصلے پر ایک خوفناک قسم کے پہاڑ کے ڈھلانی حصے پر ایک غار کِسی خوفناک اژدھے کی مانندہ منہ کھولے ہوئے تھا جیسے کِسی سالم بندے کو ہڑپ کر جانا چاہتاہو۔ پتہ چلا تھا یہ واقعی اژدہا ہے اس نے بے شمار سیاحوں ’مہم جوؤں ’بہادروں اور جی داروں کو یوں سالم نگل ڈالا تھا کہ آج تک ان کی کوئی ہڈی’کپڑے ’ جوتے کا کوئی ٹکڑا یا اُس سامان کا کوئی حصہ جسے وہ اپنے ساتھ لے کر گئے تھے ملا ہو۔ڈرائیور بتارہا تھا آج تک کوئی یہ بھی نہیں جان سکا کہ یہ اندر سے کتنا بڑا اور گہرا ہے۔ بڑی خوفناک قسم کی کہانیاں مشہور ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ غار کے ایک حصے پر چڑیلوں اور خون آشام چمگادڑوں کا قبضہ ہے۔ جونہی بدقسمت لوگ آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے عتاب کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ بعض یہاں دیوؤں اور جنوں کی موجودگی بتاتے ہیں۔
اس پُر اسرار سے ماحول میں ایسی خوفناک باتیں سنتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے ”بریم اسٹوکر“ کا کاؤنٹ ڈریکولا ویمپائر (انسانی خون چوسنے والی بلا) بنا ہزاروں میل دور سے اس غار میں آکر یہاں قابض ہو گیا ہے۔ جونہی بدقسمت سیاحوں کا کوئی ٹولہ اس میں داخل ہوتاہے۔ وہ سب سے آگے والے کو چمٹ کر اس کا خون چوس لیتا ہے۔ مرنے والا بھی اسی وقت ویمپائر کا روپ دھار لیتا ہے۔ نتیجتاً غار بے شمار ویمپائروں سے بھر گئی ہے۔ جن کی خوفناک ہنسی‘ پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور اضطرابی منڈلاہٹ نئے شکاریوں کی منتظر ہے۔
کاؤنٹ ڈریکولا کیا یاد آیا؟ کئی اور خوفناک کہانیاں دماغ میں رینگ گئیں۔ میں نے خوف کے جھٹکے اندر ہی اندر ضرور کھائے پر میرا دل پھر بھی یہ چاہا کہ میں بھاگ کر اس غار میں داخل ہو جاؤں۔ دوڑتی ہوئی آگے تک چلی جاؤں۔ جیمز بانڈ کے سٹائل میں مار دھاڑ کر کے ویمپائروں کا قیمہ کردوں اور اس راز سے پردہ اٹھانے کا اعزاز حاصل کر لوں جو ان بدقسمت سیاحوں ’مہم جوؤں اور جغرافیہ دانوں کے مقدر میں نہ تھا جو مہم جوئی میں نئے باب رقم کرنے کے لئے گھروں سے نکلے اور انجانے دیسوں میں موت کا شکار ہوئے۔
”یا اللہ انسان بھی کیا شے ہے؟ اپنی ذات کے خول میں ”اک رانجھا مینوں لوڑی دا“ کی تفسیر بننا چاہتا ہے“۔
یورپ سے مہم جوؤں کا جو ٹولہ آیا تھا۔ وہ بڑے دلیر اور جری جوانوں پر مشتمل تھا۔ ان کے قد جیسے چھت کے شہتیروں کو چھوتے تھے۔ ان کے سنہری بالوں کی چمک دمک اور حُسن زیتون کے تیل کی خوش رنگی کو مات دیتی تھی۔ شفاف نیلی کانچ جیسی آنکھوں میں سمندروں کے نیلے طوفانی پانیوں کا سا اضطراب مچلتا تھا۔
وہ جدید سامان سے لیس تھے۔ ان کے پاس ماتھے پر چسپاں ہونے والی جدید ٹارچیں تھیں گلگت کے لوگوں نے انہیں حسرت سے دیکھا تھا۔ ان کی بھرپور جوانیوں پر ترس کھایا تھا۔ انہیں اس بھسم کر دینے والی آگ میں کودنے سے منع کیا تھا۔
ایک معمر مردنے شفقت بھرے لہجے میں کہا بھی ”تمہیں اپنی جوانیاں ہنڈانا نصیب ہو۔ اس ارادے سے باز آؤ۔ آج تک جتنے بھی لوگ اندر گئے۔ ان میں سے ایک بھی باہر نہیں آیا۔ کوئی کچھ نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا بیتی“؟
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور بولے۔
”فکر مت کریں۔ بدترین صورت سے نمٹنے کے لئے ہم لوگ تیار ہو کر آئے ہیں“۔
پھر وہ ہنستے ’مسکراتے ’قہقہے لگاتے اس غار میں داخل ہوئے۔ ٹارچوں کی روشنی میں دور تک انہیں جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ پھر کچھ خبر نہ تھی کہ کیا ہوا؟
میں نے دیکھا تھا۔ شفقت کا چہرہ فق تھا۔ اس نے میرے ڈوپٹے کا پلو کھینچ کر گھگھیاتے ہوئے کہا تھا۔
”چلو۔ نکلو یہاں سے“۔
”دم لو۔ بھوت بلائیں تمہیں کھانے نہیں آرہی ہیں“۔
میں نے بظاہر بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہا۔ پر خدا جانتا ہے کہ اندر سے میرا حال بھی پتلا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے غا رکے منہ سے ابھی ایک مہیب طوفان اٹھے گا اور وہ ہمیں تنکوں کی طرح بہا کر لے جائے گا۔
میں پتھر پر بیٹھ گئی تھی۔ پورُبی ہواؤں میں یکایک تیزی آگئی تھی۔ اس تیزی نے سورج کی تپش میں کچھ کمی کر دی تھی۔
ڈرائیور لڑکا بولے جا رہا تھا۔
”خیال ہے کہ یہ غار اندر جا کر یا تو مختلف حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس کا ہر حصہ میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ جو ٹولیاں اندر گئیں۔ وہ راستہ بھول کر بھٹک گئیں اور پھر وہیں کہیں مر کھپ گئیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ اندر کوئی زہریلی گیس ہے۔ جو انسان کو زندہ نہیں رہنے دیتی۔اس پر اسرار تاریخی اہمیت کے غا رکے دہانے پر ڈیڑھ گھنٹہ گزار کر ہم پھر کار گاہ نالے پر آگئے تھے۔ ٹراؤٹ مچھلیاں اچھل کود کر  رہی تھیں۔ ذائقے کے اعتبار سے یہ مچھلی دُنیاکی لذیذ ترین مچھلیوں میں سے ایک ہے۔
جب میں نے شفقت کو یہ بتایا وہ تنک کر بولی۔
”چکھنے چکھانے کا کوئی بندوبست کرو۔ تب اس رائے پر مہر ثبت کروں گی“۔
”سبحان اللہ اتنی اہم تم نے خود کو کب سے سمجھنا شروع کر دیا ہے“۔
ہرا بھر اکارگاہ گاؤں گلگت کی چراگاہ ہے۔ موسم گرما کے مہینوں میں لوگ اپنے مال مویشیوں کو چرائی کے لئے اس گاؤں میں چھوڑ آتے ہیں اور اکتوبر کے آخری ہفتے میں برف باری سے پہلے انہیں واپس لے آتے ہیں۔ اس علاقے میں گجر قوم کی اکثریت ہے۔ کارگاہ نالے میں پانچ ہائیڈل اسٹیشنوں سے گلگت اور ملحقہ مضافاتی آبادیوں کو بجلی سپلائی ہوتی ہے۔
لڑکا ہمیں نالے کے پاس ہی بسین کی پرانی آبادی کے کھنڈرات میں لے آیا۔ وادیء بیسن گلگت شہر سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔
یہ کھنڈرات جولائی اگست میں بند ہونے والے اینٹوں کے بھٹے سے بہت مشابہ تھے۔ کوئی مسلمان بادشاہ یہاں حکومت کرتا تھا۔ اگر محکمہ آثار قدیمہ ان کھنڈرات کی کھدائی کرے تو عین ممکن ہے کچھ تاریخی حقائق منظر عام پر آئیں۔
واپسی کے لئے چلنے سے پہلے ہم نے نالے کا پانی پینے’ہاتھ منہ دھونے اور آنکھوں میں پانی کی ٹھنڈک سے تازگی دوڑانے کو ضروری سمجھا تھا۔
پریزیڈنسی سے ہوتے ہوئے ہسپتال آئے۔ جونہی سوزوکی رُکی۔ شفقت دروازہ کھولتے ہی چھلانگ مار کر یوں باہر نکلی جیسے کابک میں بند لقی کبوتری کنڈی کھلتے ہی فضا میں قلانچیں بھرنے لگتی ہے۔
یہاں وہاں برآمدوں میں درختوں کے نیچے وہ جگہ جگہ رک رک کر گردو غبار سے اٹے پڑے یادوں کے دئیوں کو صاف کرنے اور ان میں دماغ میں سنیتی ہوئی یادداشتوں کا تیل ڈال کر جلانے میں جت گئی تھی۔
”میں یہاں کھیلتی تھی“۔ وہ برآمدے میں کھڑی کہتی تھی۔
”ابراہیم مجھے یہاں سے خوبانیاں توڑ کر دیتا تھا کوثر اور عفت یہاں بیٹھتی تھیں۔ وہ کہیں دور دیکھتی تھی۔ اس کی آنکھیں تھیں کہ جیسے فانوس سے جلتے تھے.پھر وہ بھاگتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی۔ مکانوں کے گرد چکر پر چکر کاٹتے  ہوئے اس گھر کوپہچاننے میں جب اُ س کی کیفیت ہانپنے والی ہو گئی۔ تب ایک گھر کے بند پٹ دھڑ سے کھول کر وہ اندر جاگُھسی۔ باغ میں ’کمروں میں آنگن میں جیسے کن سوئیاں لیتی پھری اور میں اُس گھر میں مقیم اُس کی حرکتوں پر حیرت زدہ سی گلاپور کی فیملی کو اس کی جنونی حرکتوں کا پس منظر بتاتی رہی۔
تب دفعتاً اس کی آنکھوں میں آنسو چمکے۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر جانے کے لئے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کا اشارہ دیا۔ گلاپور کا خاندان ”چائے پی کر جائیے ایسے جانا تو اچھا نہیں لگتا“۔ جیسے الفاظ کا واویلا کرتا ہی رہ گیا۔
وہ مجھے گھسیٹتی ہوئی سوزوکی میں آکر بیٹھ گئی تھی۔ اس کی ان بچگانہ حرکتوں کو میں نے پسند نہیں کیا تھا۔ مگر یہ میں جانتی تھی کہ اس وقت وہ بہت دل گرفتہ سی ہے اسے اپنا بڑا ابو یاد آیا تھا۔ وہ ابو جو کہنے کو اس کا تایا تھا پر جس نے اسے شہزادیوں کی طرح پالا تھا۔
ساری شام اس کے ڈپریشن کی نذر ہو گئی تھی۔ مغرب کے بعدکہیں اس دورے کا اثر زائل ہوا۔ اور جب ہم عشاء کی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے فرض اور وتر کے درمیانی وقفے میں رک کر اسے بتایا کہ کل ہمیں ہنزہ چلنا ہے۔ گنونی کا تہوار دیکھنا ہے“۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply