برطانوی پارلیمنٹ پر حملہ اور پھیلتے تاریک سائے

برطانوی پارلیمنٹ پر حملہ اور پھیلتے تاریک سائے
سبط حسن گیلانی
22مارچ2017 برطانوی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا۔جب اس کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا۔ یہ بنیادی طور پر برطانوی عوام اور دنیا بھر کی جمہوری علامت پر حملہ تھا۔یہ حملہ اُن لوگوں کی طرف سے منظم کیا گیا تھا جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔جوں ہی اس حملے کی خبر نشر ہوئی برطانیہ میں مقیم تقریباً بیس لاکھ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے چہروں پر جانے ان جانے خوف کے سائے لہرا گئے۔ہر لب پر یہی دعا تھی یاخدُایا یہ دہشت گرد پاکستانی نہ ہو۔ یہ کیفیت لمحہ بہ لمحہ طویل ہوتی گئی۔سرد اور گھمبیر سی اُداسی تھی جو ماحول پر چھائی رہی۔ جب لندن انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا، کہ مسلمان اپنا خیال رکھیں، اکیلے دوکیلے باہر نہ نکلیں۔یہ سُن کر سرد اور اُداس گھمبیرتا جسم کے کسی اندرونی حصے سے نکل کر باہر جلد پر رینگنے لگی۔جیسے کوئی ہشت پا مکوڑا جنگل میں سوئے ہوے کے جسم پر رینگتا ہے۔پولیس دہشت گرد کی شناخت ظاہر نہیں کر رہی تھی اور بچھو نما ہشت پا سینے سے ہوتا ہوا منھ پر بیٹھ کر ناک میں گھسنے کی تیاری کر رہا تھا۔سارا جسم شل تھا جیسے خواب میں کوئی بڑا خطرہ سامنے پا کر اکثر ہو جاتا ہے۔
بولنے چیخنے کے لیے منھ کھولو تو آواز نہیں سانس بھی باہر آنے سے انکار کر دیتی ہے۔ دوڑنے بھاگنے کی کوشش کرو تو پائوں زمین سے چپک جاتے ہیں، بس یہی کیفیت تھی ہم سب کی۔ بہت دیر بعد بی بی سی کی طرف سے سکرین پر ایک نام اُبھرا، خالد مسعود، یہ دیکھ کر میری تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ ایسے محسوس ہواجیسے قیدیوں کی قطار کے سامنے چلتے ہوے فاہرنگ سکواڈ والے کسی ایک قیدی کے سامنے آکر رُک جاتے ہیں،اُن کے رُکتے قدموں کے ساتھ ہی اُس قیدی کے سانس بھی رُک سے جاتے ہیں۔یہ نام تو میرا نام تھا۔خالص پاکستانی نام۔پھر قدرے حواس بحال ہوے کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو معلوم ہوا، وہ پاکستانی نژاد نہیں تھا۔یہ سن کر سینے میں اٹکی ہوئی بہت ساری سانسوں نے مل کر ایک ٹھنڈی سانس لی۔لیکن ایک شناخت تو اب بھی مشترک ہے۔ یہی وہ شناخت ہے جو یہاں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے لئے دن بہ دن اُن کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔دہشت گردوں کے ساتھ ایک مشترک مذہبی رشتے کی شناخت۔ہم بے شک کہتے رہیں دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔لیکن ہم میں سے بہت سارے جن کا دہشت گردی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر اُن جیسی وضح قطع اختیار کر کے باہر گھومتے ہیں، تو تفریق مزید مشکل ہو جاتی ہے۔جب ہم حجاب کے نام پر نقاب کو فروغ دیتے ہیں۔مغرب میں رہ کر مغربی لباس کے ساتھ ساتھ اپنی پاکستانی شناخت بھی ترک کر کے عربی بدئووں کا لبادہ اوڑھ کر اسے مذہبی قرار دینے پر اصرار کر تے ہیں تو یہ تفریق اور بھی مشکل بنا دیتے ہیں۔
لندن کے مئیر صادق خان نے کہا ہے ہم معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے والوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ محض لندن جیسے بڑے شہر کے حاکم کا بیان نہیں ہے بلکہ حکومت کا پالیسی بیان ہے،اور یہی عوام کی مرضی و منشا بھی ہے۔یہ تقسیم کرنے والے کون ہیں ؟۔ایک تو وہ ہیں جو رنگ ، نسل اور زبان کے معاملے میں تفریق کرتے ہیں۔ جسے یہاں کے قانون میں جرم قرار دیا گیا ہے۔لیکن پھر بھی یہ طبقہ موجود ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے زہن کی غلاضت عیاں کرتا رہتا ہے۔ چونکہ قانون موجود ہے جو اکثر پاکستانی قوانین کی طرح سویا نہیں رہتا بلکہ جاگتا رہتا ہے اور بوقت ضرورت بروئے کار آتا ہے۔اس لیے یہ غلاضت نالیوں سے باہر نکل کر راستوں کو گندہ نہیں کرتی۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جو انسانوں کو مذہب اور عقیدے کے نام پر تقسیم کرتا ہے۔باہمی کلچر اور یگانگت اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ حکومت کا مخاطب یہی طبقہ ہے۔ میں اپنی بات کو واضع کرتا ہوں، پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان نے ہولی کے تیوہار پر ہندو کمیونٹی سے خطاب کیا۔ حالانکہ ہولی کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے کلچر سے ہے کسی مذہب سے نہیں۔ اس پر ہمارے ایک مذہبی رہنما جو آج کل مقتدرہ کی عین ناک کے نیچے بیٹھ کر ردالفساد کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں ، بھڑک اُٹھے، میں اُن کے خطاب سے محض دو جملے یہاں نقل کر رہا ہوں،اسلام کسی مسلمان کو غیر مسلم سے علیک سلیک اور بھائی چارے کی اجازت نہیں دیتا، اگر بہ امر مجبوری یہ تعلق قائم کرنا بھی پڑے تو ایسے جیسے انسان چند گھڑیاں لائٹرین میں گزارتا ہے۔ اگرچہ برطانیہ اور مغرب میں کوئی مذہبی رہنما ایسے لفظوں کا چنائو کرنے کی جرات نہیں کرے گا لیکن یہاں کی مساجد اور مدارس میں یہ سبق ضرور پڑھایا جا رہا ہے، نجس مخلوق تین طرح کی ہوتی ہے، نمبر ۱ کتا نمبر ۲ خنزیر نمبر۳ کافر،کیا اس طرح کا نقطہ نظر رکھ کر ہم اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہمیں عزت کی نظر سے دیکھیں گے؟۔کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ چوٹی کے مذہبی رہنما اس کی وضاحت کریں اور مسلم سیاسی رہنما اس کو پوری شدت سے رد کریں اور اس سلسلے میں قوانین سازی کر کے اس غیر انسانی تفریق کا راستہ روکیں۔برطانیہ ہو یا مغرب کا کوئی بھی دیگر مقام ایسے حملے مغرب کی معاشرتی و سیاسی زندگی ان کے کلچر کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے،ہاں مگر یہاں پر رہنے والے مسلمانوں کی زندگیوں اُن کی آئیندہ نسلوں کے مستقبل میں زہر ضرور گھول سکتے ہیں اور گھول رہے ہیں۔ ویسٹ منسٹر کے مقام پر یہ حملہ بظاہر برطانوی پارلیمنٹ پر کیا گیا ہے لیکن اس کا اصل ہدف یہاں پر بسنے والے پُرامن لاکھوں مسلمان ہیں ۔ ایسا ہر حملہ دراصل ایک گہرا تاریک سایہ ہے جو تیزی سے بڑھ کر یہاں کے مسلم سماج کے مستقبل پر پڑ رہا ہے۔ جب تک مسلمان مغربی عوام کے ساتھ صف اول میں کھڑے ہو کر اس دہشت گردی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے اور مذہب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرنے والے استحصالی طبقات سے اپنی گلو خلاصی نہیں کرواتے اُن کا مستقبل ہر غروب ہونے والے سورج کے ساتھ تاریک ترہوتا رہے گا۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply