تین طلاق -مکڑی کا گھر اور مادی دنیا

اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب میں سادہ و احسن طریقہ سے ابن آدم کو انسانی جبلت کا احساس دلایا ہے کہ اسکی تاویل ملنی موجودہ وقت میں انتہائی مشکل ہے۔ کیونکہ انسان جب تک طاقتور اور بے لگام ہوتا ہے اس کے سامنے کسی بھی قسم کے دلائل کے انبار لگا دیے جائیں لیکن وہ پھر بھی اپنی انا کے خُمار میں اتنا مدہوش رہتا ہے کہ اسے اپنی اس تنگ نظری کے آگے یہ سب تاویلات یا دلائل ، آسمانی کتب کے حوالے ہوں یا احادیث کی صحیح سند وہ سب کو یکدم مُسترد کرکے ایک طرف رکھتا ہے اور اپنی من مانی ومرضی کرتا ہے جس کے انجام سے شاید وہ خود بھی واقف نہیں ہوتا۔ ایسے ہی انسانوں کے بارے میں قرآن میں سورۃ العنکبوت میں اللہ پاک نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے” ،”کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس بات پر چھوٹ جائیں گے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایمان لایا ہے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا،اورجو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں ہم نے ان کو بھی آزمایا تھا اور ان کو بھی آزمائیں گے سو اللہ ان کو معلوم کرے گا جو اپنے ایمان میں سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں”،” کیا وہ لوگ جو بُرے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے، جو یہ فیصلہ کرتے ہیں برُا ہے” (سورۃ العنکبوت آیت نمبر 2 تا 4)
قرآن مجید کی سورۃ ” العنکبوت” —- عنکبوت کو اردو میں “مکڑی ” کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایاہے کہ سب سے بودا یا، کمزور گھر مکڑی کا ہے – قرآن کا معجزہ دیکھیں، ایک جملے میں ہی اس گھرانے کی پوری کہانی بیان کر دی کہ “بے شک گھروں میں سے سب سے کمزور گھر عنکبوت کا ہے اگر یہ(انسان) علم رکھتے ”۔انسان مکڑی کے گھر کی ظاہری کمزوری کو تو جانتے تھے، مگر اس کے گھرکی معنوی کمزوری یعنی دشمنی اور خانہ جنگی سے بے خبر تھے۔ اب جدید سائنس کی وجہ سے اس کمزوری سے بھی واقف ہو گئے، اس لیے اللہ پاک نے فرمایا” جن لوگوں نے اللہ کے سوا کسی اور کو کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے وہ بھی ایک طرح کا گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے کاش یہ اس بات کو جانتے” (آیت نمبر 48 سورۃ العنکبوت )۔ اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ اگر یہ علم رکھتے یعنی مکڑی کی گھریلو کمزوریوں اور دشمنی سے واقف ہو تے۔ اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے ایک پوری سورت کانام اس بری خصلت والے کیڑے کے نام پر رکھا حالانکہ اس سورت کے شروع سے آخرتک گفتگو فتنوں کے بارے میں ہے۔ تحقیق کے مطابق مادہ مکڑی بچے دینے کے بعد نر مکڑی (اپنے بچوں کے باپ) کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ پھر جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے، تو اپنی ماں کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ کتنا عجیب و غریب گھرانہ اوریقیناً بدترین گھرانہ ہے۔
ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مکڑی کا فتنوں اور آزمائشوں سے کیا تعلق ہے؟ درحقیقت، فتنے، سازشیں اور آزمائشیں بھی مکڑی کے جال کی طرح پیچیدہ ہوتی ہیں اور انسان کے لیے ان کے درمیان تمیز کرنا ان کو بے نقاب کرنا آسان نہیں ہوتا مگر اللہ مدد کرے تو یہ کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے سازشی کفار اور ان کے منافق ایجنٹوں کی تمام چالیں مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں اور مسلمانوں کو اللہ کی مدد سے ان کا مقابلہ کر نے کے لیے کمر کس لینا چاہیے، یقیناً بہترین انجام تو متقیوں کا ہی ہے ۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ تین طلاق کے معاملے میں اس سورۃ مبارک کا تذکرہ ہی کیوں کیا جائے؟ اس سورۃ مبارکہ میں فتنوں کا تذکرہ جا بجا مزکور ہے اور اب یہ فتنے چاہے انسانی دماغ کے اختراع کردہ ہوں یا انسان کے بھیس میں شیطان کا ایجاد کردہ ہو اس کا مقصد واحد صرف اور صرف انسانی تہذیب و تمدن کو تباہ وبرباد تو کرنا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دین حق میں نئے نئے قوانین لاکر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا بھی ہے جس سے انسان نما شیطان اور انسان کے بھیس میں شیطان مطمئن ہو سکیں۔
دین حنیف (دین اسلام) میں تین طلاقوں کا مسئلہ واحد ایسا مسئلہ ہے جس میں ایک طرف تین فقہوں کے علماء ایک طرف اپنی یکساں سوچ کے حامل نظر آتے ہیں مگر امام اعظم ابو حنیفہ رح کے ماننے والے ایک طرف۔ اور اس مسئلہ کی وجہ سے امت مسلمہ دو واضح حصوں میں بٹ گئی ہے اور عام مسلمان جو فقہ حنفی کو اپنے ایمان کا جُز سمجھتا ہے نیز اپنی زندگی اسی فقہ میں رہتے ہوئے گزارتا ہے نجانے کیوں اپنے اس حلال کام کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اسکے نکلے ہوئے الفاظ ایک حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں تو محض اپنی جان پر ظُلم کرتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے نفس کی پیروی کے چکر میں اس مسئلہ پر غیر مقلدوں (فقہ شافعی، مالکی و حنبلی) کے فتاویٰ کو اپنی باقی ماندہ زندگی کیلئے اختیار کرلیتا ہے۔ اسکی وجوہات اور پسندیدگی اس لیئے بھی ہے کہ اس سے ان کے جرائم پر پردہ پڑ جاتا ہے کیونکہ اسلام نے اس امر کو (طلاق کو) ادا کرنے کا بھی واضح طریقہ اپنی کتاب میں بیان فرمادیا ہے ۔ احسن طریقہ جو اللہ پاک نے قرآن میں نافذ کیا ہے اس کے لیئے دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 299۔ مگر انسان چونکہ غصہ کی حالت میں شیطان کا دوست بن جاتا ہے تو وہ اللہ کے دیے گئے قانون کو ایک طرف رکھ کر اپنا قانون نافذ کرنے کی سعی لا حاصل کرتا ہے، لیکن جب اسے اپنے کئے پر غور و فکر کرنے کا وقت ملتا ہے تو پانی سر سے سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے۔ حقیقتاً یہ ایسی تباہی ہے جس کے امر ہونے کے بعد اپنی تباہی میں کوئی سُقم باقی نہیں بچتا اور اسکے اثرات سے دو خاندانوں کی تباہی عمل میں آتی ہے اور اگر صاحب طلاق کے بچے ہوں تو تباہی مزید بڑھ جاتی ہے۔
حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ نبی کریم ﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک مسلمان نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے دیں ہیں تو آپ ﷺ غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان میں موجود ہوں ۔ اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور فرمایا یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں (نسائی 98/2)مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ تین طلاقیں اکٹھی دیں گئیں تھیں جو واقع ہوگئیں اگر تینوں واقع نہیں ہوتیں تو سرو کونین ﷺ کو غصہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی آنحضور ﷺ فرمادیتے کہ کوئی حرج نہیں رجوع کرلو۔ہائے یہ انسان کتنا جلد باز ہے کہ اپنی کوتاہی کو دور کرنے کے بجائے کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے پر تندہی کے ساتھ لگ جاتا ہے جہاں سے اسے آسانی مل سکے تو پھر وہ غیر مقلدوں کے علماء کے پاس جاکر اپنی مرضی کا فتویٰ حاصل کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا کیونکہ ایک طرف اس کو آسانی ملتی ہے تو دوسری جانب معاشرے میں ان پر کوئی انگلی نہیں اُٹھائی جاسکتی، اسکی نام نہاد عزت کا بھرم رہ جاتا ہے جبکہ نادانی کہیں یا دانستگی میں طلاق یافتہ عورت دوبارہ شوہر کے پاس رہائش پذیر ہوجاتی ہے اور مرد و زن کے تعلقات شریعت کو ایک طرف رکھ کر ادا کیئے جاتے ہیں جبکہ اسلامی شریعت اور فقہ حنفی کے تحت دونوں افراد زنا کر کے بھی اللہ کے غیض و غضب کو ہر لمحہ دعوت دیتے رہتے ہیں (نعوز باللہ)۔ جبکہ سورۃ العنکبوت کی انہی آیات میں اللہ پاک نے فرما دیا ہے کہ ایسے لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ایمان لایا ہے اور بھلا ہم کیونکر آزمائے جائیں گے۔ مگر جب ان کو اللہ کی راہ میں اذیت دی جاتی ہے، تویہ لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھتے ہیں۔” یعنی اللہ کے راستے میں تو چلنے کیلئے ہر وقت آزمائش ہوتی ہے جس کا اظہار اللہ پاک نے اپنی آیت مبارکہ میں کردیا ہے مگر جب معاشرے میں رہتے ہوئےاس کام کو سر انجام دے کر ( قانون الٰہی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی گئی)سخت ترین آزمائش کا وقت شروع ہوتا ہے تو اپنے تئیں بہت حیل و حُجت قائم کی جاتی ہے اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر تاویلیں گھڑی جاتی ہیں جبکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب دین حنیف پر ثابت قدم رہا جائے تو وہ ایسے افراد برملا کہتے ہیں کہ ہم پر آزمائش کیونکر ہوری ہے ہم تو اللہ پر اسکے دین پر اسکے رسول ﷺ پر ایمان لاچکے ہیں۔
جبکہ اسی سورۃ مبارکہ میں اللہ پاک نے فرمایا” اور دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشا ہےاور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ لوگ سمجھتے ” (آیت نمبر64 ) بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ ہی وہ وقت ہے جس کے لیئے اللہ پاک نے آزمائش کا لفظ استعمال کرکے انسانوں کی ذہنی حالت کا اظہار کیا ہے۔ دراصل دنیا کی مادی زندگی کو اپنے نفس کے تابع کرنے کے بعد ایسے ہی الفاظ ہر اس انسان کے منہ سے ادا ہوتے ہیں جس کا مقصد حیات اس دنیا میں صرف اور صرف ظاہری شان و شوکت، جھوٹی انا کی تسکین اور اپنے نفس کےمطابق اپنے روز مرہ زندگی کو اپنے مقاصد والی شریعت پر اپنانے سے (یعنی ایسی شریعت جس میں ان کے اپنے نفس کے مطابق احکامات ہوں ) حاصل ہوں تو ایسے لوگوں کے لئے یہ وقت تو تباہی کا وقت ہے اور اس پر اعتراض کرنا یقیناً گمراہی ہے۔ اب تصور کیجئے ایسے گھرانے کا جو اللہ کے قوانین کو ایک طرف رکھ کر تین طلاق ایک ہی نشست میں دے دیں اور پھر اپنی اس کوتاہی کو دوسرے فقہ کے فتویٰ میں چُھپانے کی کوشش کریں اور معصوم الخطا بن کر اسی معاشرے میں اپنی زندگی گزاریں تو ان سے ہونے والی اولاد کا مقام کیا ہوگا اور کیسے ایک گھرانہ فسق و فجور میں لتھڑا ہوا کیونکر اللہ کے عذاب سے بچ سکے گا۔ ظاہری طور پر ایک معمولی ریلیف حاصل کرکے آخرت کیلئے اپنے اعمال کو تباہ و برباد کردینا کونسی دانشمندی ہے ؟ ایک حدیث پاک ﷺ کا مفہوم ہے کہ اپنے پیٹ کی خاطر دین کو تبدیل کردینے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے(یعنی وہ مسلمان نہیں کہلایا جا سکتا ہے)۔اللہ پاک ہمیں اور ان تمام افراد کو راہ صراط مستقیم کا راستہ دکھائے اور خاص طور پر ان لوگوں کو جواپنے نفس کی خاطر اور دنیاوی نام نہاد عزت کو بچانے کیلئے تین طلاق دینے کے بعد بھی کسی بھی جوڑے کو اس قبیح ترین اور گھناؤنے اقدام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو اپنی راہ روشن کے واضح خطوط پر چلنے کی توفیق عطا کرے ۔ وہ راستہ جو نبی پاک ﷺ اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہ تابعین ، تبع تابعین و اولیائے کرام نے اپنی زندگی کے لئے چُنا تھا۔ آمین یا رب العالمین،وماعلینا الی البلاغ المبین۔

Facebook Comments

ایاز خان دہلوی
سچائی کی تلاش میں مباحثہ سے زیادہ مکالمہ زندگی کا ماحصل ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply