عضو خاص کی پیدائش

صبح اٹھا تو موبائل پر سینکڑوں پیغامات دیکھ کر پتہ چلا کہ آج میرا جنم دن ہے۔ لوگوں کی محبت اور بیگم کی بے اعتنائی کا سوچ کر کہیں دو گرم گرم آنسو کے قطرے گالوں پر ڈھلک گئے،تو بیگم بے تابانہ انداز میں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اور تھوبڑا قریب کرکے انتہائی واہیات فلمی طریقے سے پوچھنے لگی “سرتاج کیا ہوا؟۔۔۔۔ مجھے بتائیں “۔ میں نے جواب دیا کہ آج کے دن میں پیدا ہوا ہوں۔۔۔۔ فوراً ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ کر یاسیت زدہ لہجے میں بولی، رات سے رہ رہ کر ہول اٹھ رہے تھے کہ جانے آج کیا برا ہونے والا ہے، سو ابھی پتہ چلا کہ آپ کی سالگرہ ہے۔ ۔۔۔۔۔یہ کہہ کر لیٹی اور منہ پھیر کر پھر سے سو گئی۔
اماں بتاتی ہیں کہ مورخہ پانچ مئی 1980 کی ایک صبح چھ بج کر بیس منٹ پر نانی کے ہاتھوں میرا اس دنیا میں ظہور ہوا، اور ٹھیک چھ بج کر اکیس منٹ پر بوجوہ شرم یا تقدیر نانا اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔ نانی نے ایک چیخ ماری اور مجھے بستر پر پٹختے ہوئے یہ”قابل اعتراض” جملہ ادا کیا کہ یہ منحوس میرے سہاگ کو کھا گیا ،یہ پیدا کیوں ہوا؟۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ بدلہ لینا پشتونوں کی سرشت میں شامل ہے، سو چوبیس سال بعد میری سالگرہ ہی کے دن نانی گھر کو ماتم کدہ بنا کر اماں کو یتیم کرکے چھوڑ گئی۔
شہروں میں بچے ماں پیدا کرتی ہے اور گاؤں میں باپ پیدا کرتا ہے یا کرانے کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر پالنے کی ذمہ داری سو فی صد اللہ میاں کی ہوتی ہے۔ گاؤں میں ایمان اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ بچوں کو پہاڑوں ،جنگلوں، گرمی، سردی میں تنہا اپنے زور ایمانی پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ فرشتے حفاظت کےلئے موجود ہیں۔ ایک دن میری ماں بھی مجھے کسی فرشتے کے آسرے پر جھاڑیوں میں بٹھا کر گندم کی کٹائی میں مصروف ہوگئی۔ دروغ بہ گردن والدہ کہ میں اس وقت ایک سال کا تھا، جب اماں واپس آئی تو چیخ مار کر پورے گاؤں کو اکٹھا کرلیا ،کیونکہ ایک سانپ جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر چبانے کی کوشش کررہا تھا اور وہ بیچارا گھبراہٹ میں ڈسنا تک بھول گیا تھا، اماں کی چیخ سے گھبرا کر اور شکر ادا کرکے کہیں جھاڑیوں میں کھو گیا۔ اماں ابھی تک اس بات پر بضد ہے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا اور میرے ٹائم پاس کے لئے سانپ کا روپ دھارے ہوئے تھا، تاکہ میں اس کے ساتھ کھیلوں۔۔۔ مگر میں جب بھی کہتا ہوں کہ اماں ایک سالابچے کو ایک گھنٹے کے اندر فیڈ نہ کرایا جائے تو سانپ تو کیا وہ ہاتھی کو بھی پکڑ کر منہ میں ڈال لے گا۔۔۔۔ مگر ماں ماں ہوتی ہے میری منطق کہاں مانتی ہے۔۔۔۔
کہتے کیا ہیں بلکہ خود بھگتا ہے کہ خوبصورتی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔۔۔ بالخصوص جب آپ لڑکے ہوں اور خٹک قبیلے سے بھی ہوں۔ا ماں مجھے اس بابت لڑکوں کے ساتھ کھیلنے سے منع فرماتی تھی ، حالانکہ ان لڑکوں کی موجودہ بیویاں ان کو مجھ سے کھیلنے سے منع فرماتیں ہیں۔ اماں مجھے صرف لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے دیتی تھی مگر لڑکیوں کی مائیں مجھے واپس بھیج دیتیں تھیں۔ بچپن میں مَیں گول گپا سا تھا، لہذا ہر خاتون مجھے گود میں اٹھانے کے لئے مچل مچل جاتی ۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ فوراً نیچے پھینک بھی دیتی تھی۔ بیگم زیر لب مسکرا کر کہتی ہے کہ بچپن کی وہی قبیح حرکتیں روز بروز مزید قبیح سے قبیح تر ہوتی جارہی ہیں۔
بڑے ہوئے تو خود کو گاؤں کی ایک زرخیز لڑکی سے محبت کر نے سے نہیں روک پائے، محبت کے چرچے عام ہوئے تو قریب تھا کہ قتل ہوجاتے ۔۔۔والد صاب نے دیار غیر یہ کہہ کر بھیجا کہ”منحوسا محبت کیلئے لڑکی کو کیوں چنا؟ حالانکہ لڑکے بھی ہیں”۔ میں نے جواب دیا کہ اس میں میرے لیے خطرہ زیادہ تھا اور شادی لڑکی سے ہوتی ہے لڑکوں سے نہیں۔۔۔ یہ سنتے ہی تھپڑ جڑ دیا کہ تم”پیدا کیوں ہوئے ہو”۔ اصولاً یہی سوال ابا کو خود سے کرنا چاہیے تھا۔
ماسکو میں خود کو کھوجتے کھوجتے اس لڑکی سے شادی کی جو پہلے لڑکی تھی، مگر آج چار بچوں کو پیدا کرنے کے بعد (عدنان سمیع خاں) کا روپ دھار کر ہم پر چنگھاڑتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اسکول پرنسپل کے ہاں گاہے بگاہے چکر کیوں لگا رہے ہیں۔۔ کونسا بچوں کا ایسا مسئلہ ہے جو میں ان سے ڈسکس نہیں کرسکتا، اور روز جاکر پرنسپل سے ڈسکس کرنے پہنچ جاتا ہوں۔ مجبور ہوکر شوہر والا حق استعمال کیا اور منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دس ، سات اور پانچ سالہ بیٹے سرخ آنکھوں اور چہرے پر غیض و غضب سجائے دیوار بن کر درمیان میں کھڑے ہوگئے کہ اماں کو کیوں مارا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب دیا کہ اگر وہ آپ کی ماں ہے تو میں کون ہوں؟ جواب ملا ،نہیں پتہ۔۔۔۔ مگر ماں سے دور رہنا۔ بہیترا سمجھایا کہ بیٹا میں بھی باپ ہوں ۔۔۔پوچھتے ہیں باپ کیا ہوتا ہے؟ تنگ آکر کہا باپ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ تم لوگوں کی ماں نے تمھیں گوگل پلے سٹور سے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔
اب آپ لوگ بتاؤ آج اپنی سالگرہ کس طرح دھوم دھام سے مناؤں؟

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply