حزیں قادری۔ عظیم پنجابی کہانی اور گیت کار۔۔۔لیاقت علی

پنجابی فلم و ادب کی تاریخ حزیں قادری کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ حزیں قادری نے اپنے گیتوں، مکالموں اورکہانیوں کی بدولت پنجابی فلم انڈسٹری پر راج کیاتھا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہر دوسری فلم کے گیت،کہانی اور مکالمے حزیں قادری کے لکھے ہوئے ہوتے تھے۔
ماہی وے سانوں بھل ناں جاویں۔اللہ دا ناں ای دیر نال لاویں
ہان دیا سجناں لمیاں اڈیکاں دن پیارے دے
فلم ملنگی کے لئے یہ گیت حزیں قادری نے کم و بیش ساٹھ سال قبل لکھا تھا لیکن اس گیت کی مقبولیت کا یہ عالم ہے یہ آج بھی ہمیں گلی کوچوں میں سنائی دیتا ہے۔ ٹانگہ والا خیر منگدا ٹانگہ لہور دا ہووے بھاویں جھنگ دا ٹانگہ والا خیر منگدا تو ایسا گیت ہے کہ ایک وقت میں نہ صرف پنجاب بلکہ پنجاب سے باہر بھی مقبول ترین گیت ہوا کرتا تھا۔
ترے بول نیں تے میریاں نیں بلیا ں۔تیری یاد وچ پہلی واری کھلیا ں وے آکے ٹرجان والیا ماہیا
کسے دیاں نظراں دا وار ہوگیا۔دل پہلوں نیئں سی مان اتوں پیار ہوگیا
یہ اور اس طرح کے سینکڑوں گیتوں کے تخلیق کار حزیں قادری گجرانوالہ کے پنڈ راجہ تھوی میں 94 سال قبل1927میں پیدا ہوئے تھے۔ انھیں پرایمری کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا کیونکہ والدین میں اتنی مالی سکت نہیں تھی کہ انھیں مزید تعلم دلا سکتے۔طبعیت کا رحجان پنجابی شاعری کی طرف تھا۔لہذا انھوں نے پنجابی قصے لکھنا شروع کردیئے۔ ان دنوں مشہور مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات اور تاریخی واقعات و حادثات کو قصوں میں بیان کرنے کا رواج تھا اور عام طور یہ قصص لکھنے والے خود ہی انھیں بسوں ٹرینوں میں بیچا بھی کرتے تھے۔ حزیں قادری قصے لکھتے اور خود انھیں پھیری لگا کر بیچا بھی کرتے تھے یہی ان کی روٹی روزی کا وسیلہ تھا۔انھوں نے قصوں کے ساتھ ساتھ نعتیں بھی لکھنا شروع کردیں اور ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ نعتیہ کلام پر ہی مشتمل تھا۔
حزیں قادری قصے لکھتے اور بیچتے کسی نہ کسی طرح اپنے دور کے معروف ادیب حکیم احمد شجاع سے متعارف ہوگئے۔ حکیم احمد شجاع کی صحبت اور رہنمائی میں حزیں قادری کو اپنی ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سنوارنے کے مواقع ملے اور وہ مسلم لیگ کے جلسوں میں نظمیں پڑھنے لگے۔
قیام پاکستان کے بعد انھوں نے پہلا فلمی گیت حکیم احمد شجاع کے بیٹے انور کمال پاشا کی اردو فلم ٹوٹے تارے کے لیے لکھا تھا۔یہ فلم تو بوجودہ نامکمل رہی لیکن اس کی بدولت حزیں قادری کو فلم انڈسٹری میں داخل ہونے کا موقع ضرور فراہم ہوگیا تھا۔پنجابی زبان پر حزیں قادری کو مکمل عبو ر حاصل تھا لہذا انھوں نے پہلی پنجابی فلم نتھ لکھی جو اکتوبر 1952میں ریلیز ہوئی تھی لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ہوگئی۔ نتھ دونوں زبانوں اردو اور پنجابی میں بنائی گئی تھی۔ نتھ کی ناکامی کے بعد حزیں قادری نے پاٹے خان کی کہانی اور گانے لکھے تھے۔ پاٹے خاں کے لئے حزیں قادری کے لکھے اور نورجہاں کے گائے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچادی تھی۔ کلی کلی جان تے دکھ لکھ تے کروڑ وے۔ دور جان والیا مہاراں ہن موڑ وے ایسا گیت ہے جو آج بھی فلمی گیتوں کے شایقین میں مقبول ہے۔پاٹے خان کے بعد انھوں نے پینگاں، مورنی،نوراں،پردیسن،بچہ جمورا،بہروپیا اور رانی خاں جیسی پنجابی فلموں کی کہانیاں اور گیت لکھے۔
حزیں قادری کی فلمی کہانیوں اور گیتوں کی خصوصیت تھی کہ فلم بین کو ان کے کرداروں میں اپنی شخصیت کا عکس نظر آتا تھا۔ حزیں قادری جوں جوں بطور کہانی کار او ر گیت نگار آگے بڑھتے رہے وہ پر وڈیوسرز سے یہ پوچھنے میں حق بجانب تھے کہ کتنے ہفتے چلنے والی فلم چاہیے۔جب عنایت حسین بھٹی نے کلاسیکی شاعر وارث شاہ کی زندگی پر فلم بنانے کا ارادہ کیا تو اس کے لئے انھوں کہانی اور گیتوں کے لئے حزیں قادری کا انتخاب کیا تھا۔ حزیں قادری نے وارث شاہ کی زندگی پر بننے والی اس فلم کو پنجابی ثقافت اور رہن سہن کی حقیقی عکاس بنادیا تھا۔وارث شاہ کے بعد انھوں نے ماماجی، چاچاجی،ہتھ جوڑی، پلپلی صاحب، اک سی چور، من موجی، جی دار، بھریا میلہ، یار مار، جگری یاراور دل دا جانی فلموں کے گیت لکھے تھے۔ دل دا جانی کا یہ گیت:
سیو نی میرے دل دا جانی،
لاکے نیوں مکر گیا جے آج بھی بڑے شوق سے سنا جاتا ہے
وارث شاہ عام فلم بینوں کو پسند نہیں آئی تھی۔ چنانچہ اس کے بعد انھوں نے بھٹی برادران کے لئے ایسی فلمیں لکھیں جن میں فلم اور تھیٹر کو باہم جوڑ دیا گیا تھا۔اس سلسلے کی پہلی فلم چن مکھنا ں تھی جس کا گیت چن میرے مکھناں آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس کے ایک سے زائد ری میک بن چکے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حزیں قادری گیت کا مکھڑا لکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ جوں ہی کسی گیت کا مکھڑا لکھتے تو ساتھ یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ یہ گیت مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دے گا۔ حزیں قادری کو یہ کمال حاصل تھا کہ وہ گیت چند منٹوں میں لکھ لیا کرتے تھے۔حزیں قادری اپنی کہانیوں اور گیتوں میں فلم بینوں کی پسند اور رحجان کا بطور خاص خیال رکھتے تھے یہی وجہ ہے ان کی لکھی ہوئی فلمیں اور گیت باکس آفس پر ریکارڈ کامیابی حاصل کرتی تھیں۔
حزیں قادری کا کہانی لکھنے کا طریقہ کار بھی انوکھا تھا وہ کہانی بولتے جاتے اور ان کے شاگرد لکھتے جاتے تھے۔بعض اوقات وہ بیک وقت ایک سے زائد فلموں کے مکالمے بھی ایک ہی نشست میں لکھواتے تھے جو ہر فلم کی کہانی کے مطابق ہوتے تھے اور یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کے لکھوائے گئے مکالموں میں کسی قسم کا جھول ہو۔
1981 کے بعد حزیں قادری نے خود کو گیت نگاری تک محدود کرلیا تھا۔ حزیں قادری کام کی زیادتی کی بدولت بیمار ہوگئے اور 1989میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ گھر تک محدود ہوکر رہ گئے۔ اس وقت تک وہ 250 فلموں کی کہانیاں، گیت اور مکالمے لکھ چکے تھے۔ بیماری اور صاحب فراش ہونے کے باوجود انھوں نے گیت نگاری جاری رکھی اور بہت سی فلموں کے گیت لکھے۔حزیں قادری طویل علالت کے بعد 19۔مارچ 1991 کو فوت ہوگئے۔ حزیں قادری نے اپنے فلمی کئیرئیر میں چھ اردو فلموں کی کہانیاں اور گیت لکھے تھے۔ انھوں نے چند فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔ حزیں قادری کے گیتوں، مکالموں اور کہانیوں نے پنجابی زبان کو دنیا بھر میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان جیسا زرخیز ذہن پنجابی فلم انڈسٹری کو ان کے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ وہ اپنے عہد کے لیجنڈ تھے۔ گیت نگاری میں ان کے مقابلہ کرنے کی سکت کسی میں نہیں تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply