فِلتھ جنریشن وار ۔ ۔۔۔۔اویس احمد/حصہ اول

آج کل سوشل میڈیا پر ایک نئی طرز کی جنگ کا بہت چرچا ہے۔ اس جنگ کو ففتھ جنریشن وار کا نام دیا جاتا ہے۔ اس نئی طرز کی جنگ میں روائیتی ہتھیاروں کے بجائے پروپیگنڈے سے کام لیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس میں مسلسل پروپیگنڈے کے تحت سیاسی جماعتوں، راہنماؤں، مذاہب اور مذہبی راہنماؤں وغیرہ کے بارے میں سچی اور جھوٹی معلومات پیش کی جاتی ہیں اور ان کی مدد سے عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ تاہم یہ ابھی محض مفروضے کی حد تک ہے۔ ابھی اس مفروضے کو باقاعدہ طرز جنگ تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسی لیے ماہرین کے نزدیک ابھی صرف چار جنگی جنریشنز حتمی کہلائی جاتی ہیں۔

ہم پاکستانی مگر دنیا سے الگ چلنے کے عادی ہیں۔ ہم نے ففتھ جنریشن وار کے مفروضے کو پکڑا۔ اس پر تحقیق کی اور اس کے اندر سے اپنا ایک نیا مفروضہ برآمد کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے تحت سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل معرض وجود میں آ گئے۔ ان میڈیا سیل کا بنیادی مقصد اپنی اپنی جماعتوں کی اچھائیوں کو اجاگر کرنا اور اپنی جماعتوں کے منشور اور سیاسی نظریات کی ترویج تھا۔ مگر تقریباً تمام بڑی جماعتوں کے میڈیا سیل کے اندر ایک ایک خفیہ سیل تشکیل پایا اور اس خفیہ سیل کا واحد مقصد اپنے مخالف سیاسی راہنماؤں کی بے ہودہ کردار کشی کرنا ٹھہرا۔ یہ خفیہ سیل جس جنریشن کے تحت کام کرتے ہیں اس کو فِلتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔
اس فلتھ جنریشن وار کے کمانڈر چھانٹ چھانٹ کے کیچڑ بھرے اذہان مقرر کیے گئے جو اخلاقی قدروں سے اسی قدر بے بہرہ ہوتے ہیں جس قدر عمران خان پارلیمنٹ سے یا نواز شریف ایمانداری سے۔ ممکن ہے ان سطور کی اشاعت  کے بعد مجھے پیپلز پارٹی کی فلتھ جنریشن وار کا سرخیل سمجھا جائے تو میں پہلے ہی اوپر والے جملے میں اضافہ کیے دیتا ہوں کہ جیسے عمران خان پارلیمنٹ سے، نواز شریف ایمانداری سے یا آصف زرداری اصولی سیاست سے بے بہرہ ہیں۔ ان کے علاوہ فی الحال اور کوئی سیاسی جماعت قابل ذکر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو میں اس کا ذکر نہیں کروں گا بلکہ میں پیپلز پارٹی کا ذکر بھی نہیں کروں گا بلکہ میں صرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز تک محدود رہوں گا کیونکہ اس وقت یہی دونوں جماعتیں فلتھ جنریشن وار کی سربراہی کر رہی ہیں۔

فلتھ جنریشن وار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے اور گندی اور واہیات باتوں سے کردار کشی کرنے اور نیچا دکھانے کی جنگ ہے۔ حالانکہ اصل میں کیچڑ اچھالنے والا خود ہی اس کیچڑ میں لت پت ہو رہا ہوتا ہے مگر اس کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ فلتھ جنریشن وار کے لیے محض سوشل میڈیا تک محدود ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے گند آلودہ ذہن اپنی غلاظت مین اسٹریم میڈیا پر بھی اگلتے رہتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو اگر فلتھ جنریشن وار میں صف اول کی جماعت قرار دے دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کی سیاسی تاریخ میں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی سے لے کر عمران خان کی ذاتی زندگی کے بارے میں باریک سے باریک تفصیلات کی ترویج شامل ہے۔ یہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے کچھ الو کے پٹھوں کو مخالفین کی صفوں میں بھی داخل کرنے سے نہیں کتراتے اور بعد میں فوائد سمیٹتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف نے اس میدان میں بھی مسلم لیگ نواز سے قدم بہ قدم مقابلہ کرنے کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ ان کی صفوں میں بھی گھٹیا پن کی انتہا کی حد تک گر جانے والے لوگ موجود ہیں جو کسی قسم کی اخلاقیات پر یقین نہیں رکھتے اور سر عام بے ہودہ گوئی کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔

فلتھ جنریشن وار اب سیاسی جماعتوں کے خفیہ میڈیا سیل سے نکل کر پاکستان کے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے طبقے میں بھی پھیل گئی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے حمایتی ہوں یا مسلم لیگ نواز کے حمایتی یا پھر کسی کے بھی حمایتی نہ ہوں وہ پاکستانی ہونے کا ثبوت اپنے اعلیٰ اخلاق اور افکار کے روشنی میں مہیا کرتے ہیں۔ موبائل فون اور کمپیوٹر اسکرینوں پر ایسے ایسے زبردست الفاظ نمودار ہوتے ہیں کہ نگاہیں طہارت کی متقاضی ہو جاتی ہیں۔

تازہ واقعات تحریک انصاف کے لاہور میں گریٹر اقبال پارک میں منعقد ہونے والے جلسے کے بعد رونما ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے حمایتیوں، شکایتیوں لکھاریوں اور تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ایک ناکام جلسہ تھا۔ یقیناً ہو گا مگر رانا ثناء اللہ، طلال چوہدری اور عابد شیر علی نے جو افکار عالیہ ارشاد فرمائے وہ کچھ کسی اور حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اب وہ افکار اور الفاظ کیا ہیں، میرا کی بورڈ ان الفاظ کو ٹائپ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

جب مسلم لیگ ن کے حمایتیوں کو توجہ دلا کر ان اعلیٰ اخلاق کے علم برداروں کی مذمت کرنے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے فلتھ جنریشن وار کے تحریک انصاف کے شاہ سواروں یعنی عامر لیاقت حسین، فواد چوہدی اور فیاض الحسن چوہان وغیرہ کی مثالیں الاپنا شروع کر دیں۔ بجا۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی ایک، دو یا تین یا بے شمار کی ہذیان گوئی کا دفاع کسی دوسرے کی ہذیان گوئی کیسے ہو سکتی ہے؟

کیا قبر میں فرشتہ جب کسی مسلم لیگ ن کے حمایتی سے حساب لینے آئے گا اور رانا ثناءاللہ یا عابد شیر علی کی بدگوئی پر واہ واہ کرنے اور ان کی باتوں کی حمایت کرنے پر سوال کرے گا تو وہ یہ جواب دے سکیں گے کہ عامر لیاقت اور فواد چوہدری کے بارے میں کیا خیال ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

اویس احمد
ایک نووارد نوآموز لکھاری جو لکھنا نہیں جانتا مگر زہن میں مچلتے خیالات کو الفاظ کا روپ دینے پر بضد ہے۔ تعلق اسلام آباد سے اور پیشہ ایک نجی مالیاتی ادارے میں کل وقتی ملازمت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فِلتھ جنریشن وار ۔ ۔۔۔۔اویس احمد/حصہ اول

Leave a Reply