یومِ مزدور۔۔۔رانا شعیب الرحمان

یوم مزدور سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے مزدور کے لئے دلکش لولی پوپ !
سانحہ شکاگو یکم مئی 1886 سے پہلے بھی مزدور کا استحصال ہورہا تھا اور شکاگو کے اس المناک حادثے سے لے کر آج تک مزدور کا استحصال اسی طرح جاری ہے سرمایہ اور محنت میں فرق بھی اسی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔امیر پہلے سے امیر نظر آتا ہے اور غریب پہلے سے غریب ہوتا چلا جا رہا ہے آخر کیا وجہ ہے آج تو مزدوروں کے پاس ان کا ایک عالمی دن بھی موجود ہے جس کو پوری دنیا کے مزدور بڑے جوش و خروش سے منا رہے ہیں ،پھر بھی مزدوروں کا یہ عالمی دن بھی مزدور کو اس کے ہوتے ہوئے استحصال سے بچانے سے قاصر کیوں ہے ؟

اصل میں یکم مئی مزدور کا یہ دن سارا سال مزدور کا خون نچوڑنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کا مزدور کے لئے ایک لولی پوپ کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ 1886 سے پہلے مزدور کے اندر ان کے استحصال ظلم اور ناانصافی پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک لاوا جو پک رہا تھا وہ ہر بندھن توڑتا ہوا باہر نکل آیا تھا پہلے تو سرمایہ داروں نے طاقت کے ساتھ اس لاوے کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ،شکاگو کی گلیوں میں مزدوروں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں لیکن یہ لاوا تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ قریب تھا کہ شکاگو کی گلیوں میں ابلتا ہوا یہ لاوا سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو اپنے اندر بہا کر لے جاتا اور اس کے وجود کو ہی نیست و نابود کر دیتا،

سرمایہ داروں نے فوری ایک شاطرانہ پینترا بدلا مزدوروں کو کچھ حقوق دے کر ان کو ایک دن منانے پر راضی کر لیا، مزدور ان کے جھانسے میں آگیا، مزدور کا یہی نام نہاد دن اس کے حقوق کو لے ڈوبا اب مزدور دو وقت کی روٹی کے لئے سارا سال اسی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک پرزے کی طرح چلتا ہے، سال میں ایک دن یکم مئی کو ان سرمایہ داروں کے خود ساختہ لیڈران کی طرف سے مزدوروں کو اکٹھا کرکے چند جلوس نکالے جاتے ہیں جس میں شہدائے شکاگو کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، نعرے لگائے جاتے ہیں مزدوروں کے اندر اگر کچھ ابال ہوتا بھی ہے تو ان نعروں کے ذریعے اسے ان سڑکوں پر نکالوا دیا جاتا ہے تاکہ وہ ابال کہیں لاوا بن کر پھٹ نہ پڑے اور 1886 شکاگو کی تاریخ نہ دہرا دے

کیونکہ یہ لاوا اشتراکی نظام کی صورت میں نکلا تھا اور اس نظام نے سرمایہ دارانہ نظام کی چولیں ہلا کر ضرور رکھ دی تھیں لیکن اشتراکی نظام اپنے اندر بھی بہت سی کجیاں اور خامیاں رکھتا تھا جو وقتی طور پر عوام کو ابھار کر روٹی کپڑا اور مکان کے دلفریب نعرے دے کر فلاحی ریاست کے سہانے خواب تو دکھلا سکتا ہے لیکن طویل مدت کے لئے باقاعدہ نظام حیات نہیں بن سکتا جو اپنے اندر ایک قوت جاوداں رکھتا ہو اور ناقابل تسخیر ہو اشتراکی نظام ایسا ثابت نہیں ہو سکا اسی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام نے اسے پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اپنے اندر نگلنے میں کامیاب ہو گیا اور نہ ہی یہ نظام ماسکو اور بیجنگ کی کسی گلی میں ہی پناہ لینے میں کامیاب ہی ہو سکا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

قانون قدرت ہے کہ ظلم کو کبھی بھی دوام حاصل نہیں رہا سرمایہ دارانہ نظام کی یہ عمارت مکمل طور پر ظلم پر کھڑی ہے گوکہ یکم مئی مزدور کا یہ دن سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے اپنے آپ کو دوام دینے کے لئے مزدور کو دیا گیا ہے تاکہ چند نعروں کے ذریعے مزدور کے اندر کے ابال کو لاوا بننے سے پہلے خارج کروا دیا جائے اور ظلم و استحصال کے نظام کو دوام حاصل رہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ دن آئے گا جب مزدور اپنی خودی اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس چال کا ادراک کر لے گا وہ ایک دن منانے کی قید سے نکل آئے گا اس کے بعد سال کے 365 دن مزدور کے ہونگے اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی بقا قائم رکھنے کے لئے یکم مئی کی طرح کا پورے سال میں ایک دن بھی نہیں ملے گا وہ دن اس نظام کا آخری دن ہوگا ان شاءاللہ!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply