• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جدید قمری کیلنڈر اور رویت ہلال تنازعہ۔۔ حل کیا ہے؟ ۔۔۔۔عنائیت اللہ کامران

جدید قمری کیلنڈر اور رویت ہلال تنازعہ۔۔ حل کیا ہے؟ ۔۔۔۔عنائیت اللہ کامران

پاکستان میں بدقسمتی سے رویت ہلال کے حوالے سے اختلاف رہا ہے. ماضی میں صدر ایوب خان کے دور میں حکومت نے اپنی مرضی سے عید کرانے کی کوشش کی لیکن یہ فیصلہ تسلیم نہ کرنے والے علماء کرام کو پابند سلاسل کرنے کے باوجود حکومت اپنی کوشش میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی. خیبرپختونخوا میں طویل عرصے سے عید کا چاند متنازعہ رہا ہے اور یہاں کے ایک بہت بڑا حصے میں ملک کے دیگر حصوں سے ایک دن پہلے عید منائی جاتی رہی ہے. اس حوالے سے گذشتہ کئی سالوں سے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی صوبہ کے مختلف علاقوں سے شہادتیں جمع کر کے عید کا اعلان کرتی ہے. اس بات سے قطع نظر کہ ان شہادتوں کی حیثیت کیا ہے؟ یہ عمل کئی دن تک زیر بحث رہتا ہے. حکومتی رویت ہلال کمیٹی جو اس وقت مفتی منیب الرحمن صاحب کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے پر بھی اعتراضات کی بوچھاڑ رہتی ہے، عموماً یہ اعتراض ہوتا ہے کہ چاند جو دیکھا گیا ہے وہ حقیقتاً پہلے دن کا تھا؟
ان حالات میں جبکہ یہ مسئلہ پہلے ہی لاینحل تھا وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے قمری کیلنڈر تیار کر کے قریباً ہفتہ دس دن قبل ہی 5 مئی 2019ء کو عیدالفطر ہونے کا اعلان کر دیا… اس پر لے دے شروع ہو گئی جو ابھی تک جاری ہے. علماء کرام اور ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت نے حکومتی قمری کیلنڈر کو یوں سمجھیں مسترد کردیا، چوہدری فواد حسین اپنی جگہ بضد کہ عید ان کے بنائے ہوئے قمری کیلنڈر کے مطابق ہی ہوگی، اب بصری رویت کی کوئی ضرورت نہیں ہے. انہوں نے جذبات میں آکر رویت ہلال کمیٹی اور علماء کرام کی بھرپور تضحیک بھی کر ڈالی. جبکہ دوسری جانب ایک بہت بڑا طبقہ جن میں علماء کرام کی بہت بڑی اکثریت بھی شامل تھی اس بات پر ڈٹ گئی کہ بصری روئیت شرعی طور پر ضروری ہے جب تک اپنی آنکھوں سے چاند نہ دیکھ لیا جائے، نئے مہینے کے آغاز کا اعلان درست نہیں ہے.
اس دوران کے پی کے کی پی ٹی آئی حکومت نے “لنکا” ڈھا دی… وہاں سرکاری سطح پر رمضان المبارک کا آغاز سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق کیا گیا لیکن عید کا اعلان شہاب الدین پوپلزئی کی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق کردیا گیا… جبکہ ابھی 28 روزے پورے ہوئے تھے.
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھا ہے کہ سعودی عرب میں عموماً پاکستان سے ایک دن پہلے قمری مہینے کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح افغانستان، پاکستان کے افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں اور کے پی کے کے بعض حصوں میں بھی پاکستان کے دیگر علاقوں سے ایک دن پہلے رمضان المبارک اور عید کا اعلان کر دیا جاتا ہے. لیکن اس بار تو حد ہی ہو گئی کہ ایک روزہ ہی گول کر دیا گیا… یہ ایک الگ موضوع ہے… ہم واپس قمری کیلنڈر کی طرف لوٹتے ہیں…
میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ فلکیات کا بہت بڑا ماہر ہوں البتہ فلکیات کے متعلق کچھ کتابوں کا مطالعہ ضرور کیا ہے… اسی طرح میں کوئی سائنسدان نہیں لیکن سائنس کا طالب علم ضرور ہوں…
دونوں طرف کا مؤقف جو سامنے آیا ہے… اگر اس میں سے ضد کو نکال دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا…
مختصراً یہ کہ علماء کرام کا یہ مؤقف بالکل درست ہے کہ قمری کیلنڈر پر کلی طور پر انحصار نہیں کیا جاسکتا… سائنسی آلات و معلومات سے معاونت و استفادہ کیا جا سکتا ہے. اور چوہدری فواد حسین کا یہ مؤقف سراسر غلط ہے کہ قمری کیلنڈر ہی سب کچھ ہے اور رویت ہلال کمیٹی کی اب ضرورت نہیں ہے، بات سمجھنے کی ہے… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ “چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو” (مفہوم). یہاں بصری روئیت کا حکم دیا گیا ہے… اس سے اگلے مرحلے کے لئے بھی رہنمائی دی گئی ہے، اگر موسم ابر آلود ہو تو…. روئیت کا کہیں سے کوئی امکان ہی نہ ہو تو پھر”ایک روزے کا اضافہ کر کے تیس روزے پورے کر لو” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد اب سارے جواز، تاویلات اور حیلے ختم ہو جاتے ہیں…. واضح ہدایت ہے کہ بصری روئیت ضروری ہے.
آج دنیا بھر میں جتنی ایجادات ہیں یا سائنسی ترقی آپ کو نظر آرہی ہے ان میں سے بیشتر کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی ہے. یہ مسلمانوں کی میراث تھی جو ان سے چھین لی گئی ہے. اسلام تحقیق و تعلم کے خلاف نہیں ہے… اب رہا یہ سوال کہ قمری کیلنڈر سے استفادہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اس سے پہلے ایک واقعہ اسی حوالے سے پیش خدمت ہے…
سعودی عرب نے بھی ملک میں قمری کلینڈر رائج کررکھا تھا(اس حوالے سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ کیلنڈر بھی محض “زیب داستان” کےلئے ہے) اور اسی کے مطابق روزے اور عیدین کی جاتی تھیں…. لیکن غالباً 1972ء(سن یقینی طور پر یاد نہیں) میں قمری کلینڈر غلط ثابت ہوگیا اور اس وقت کے ولی عہد شہزادہ خالد نے ٹی وی پر آکر قوم سے معافی مانگی اور بعد میں ایک کمیٹی تشکیل دی جو بصری رویت کے بعد چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرتی ہے…موصولہ معلومات کے مطابق سعودی عرب نے قمری کیلنڈر پر انحصار ختم کر دیا ہے، اگرچہ وہ رائج ضرور ہے لیکن اس کیلنڈر سے استفادہ کرتے ہوئے کمیٹی بصری روئیت کے بعد چاند کا اعلان کرتی ہے.
رویت ہلال کمیٹی پاکستان قمری کیلنڈر سے اس طرح استفادہ کر سکتی ہے کہ جدید سائنسی آلات کے ذریعے قبل از وقت چاند کی پیدائش کے متعلق معلوم ہوجاتا ہے… یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیدائش کے بعد سورج غروب ہونے کے وقت چاند کی عمر کتنی ہوگی؟ اور چاند کس اینگل پر ہوگا؟ طلوع ماہتاب کے بعد کتنی دیر تک چاند موجود رہے گا؟ کیا چاند کی عمر اتنی ہوگی کہ دوربین کے ذریعے معلوم شدہ اینگل پر یہ نظر آجائے گا؟
مثال کے طور پر 3 مئی 2019ء کو سہہ پہر تین بج کر دو منٹ پر چاند کی پیدائش کے متعلق قمری کیلنڈر، محکمہ موسمیات اور سپارکو و دیگر سائنسی اداروں و آلات کے ذریعے معلوم ہوا…. اس کا مطلب ہے کہ غروب آفتاب کے وقت 3 مئی کو چاند کی عمر محض چند گھنٹے تھی اور یہ پیدا تو ہوچکا لیکن اس کی بصری روئیت کا امکان نہیں ہے، جبکہ 4 مئی 2019ء کو غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر کم و بیش 28 گھنٹے اور کچھ منٹ زائد تھی… لہذا یہ چاند بآسانی نظر آنا چاہیے۔ بھلے عام آنکھ اسے نہ دیکھ سکے…. سائنسی آلات و تحقیقات کے مطابق بیان کردہ اینگل پر بصری رویت کی جائے تو چاند نظر آنا چاہیے…. اسی طرح بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چاند کی پیدائش غروب آفتاب سے 15 گھنٹے پہلے ہو تو تب بھی میری معلومات کے مطابق چاند بصری طور پر نظر نہیں آئے گا جدید ٹیکنالوجی اس کی پیدائش اور جس اینگل پر یہ ہوگا اس کی بالکل درست معلومات دے گی لیکن یہاں ایک مسئلہ اور جس سے سعودی عرب دوچار ہوا تھا اور اسے بالآخر بصری روئیت کی طرف لوٹنا پڑا…. اس لئے چوہدری فواد حسین صاحب و دیگر حکومتی وزراء و زعماء اس معاملے کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہ چڑھائیں بلکہ سنجیدگی سے علماء کرام کے ساتھ بیٹھ کر بیان کردہ حل کے مطابق فیصلہ کریں… وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنے اس موقف سے دستبردار ہونا چاہئے کہ رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے…. بصری روئیت کے بغیر چاند کا فیصلہ ممکن ہی نہیں ہے…. اس کے بعد اصل چیلنج دونوں فریقین کے لئے یہ ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن قمری مہینے کا آغاز ہو خاص طور پر رمضان المبارک اور عیدین کے تہوار ایک ہی دن ہوں…. کیا ایسا ممکن ہے؟ یہ کیسے ہوگا اس مسئلے کا حل نکالنے کی ضرورت ہے. آخری بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق باوجود کئی اختلافات کے (ان اختلافات کی بھی کوئی ٹھوس حیثیت نہیں ہے) پاکستان میں روئیت ہلال کا نظام سب سے بہتر اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہے، اسے مزید بہتر جدید سائنسی تحقیق و سائنسی اداروں سے حاصل شدہ معلومات کے ذریعے بنایا جا سکتا ہے. یعنی سائنسی ایجادات و معلومات خواہ وہ قبل از وقت قمری کیلنڈر کی پیشن گوئیاں ہوں یا سائنسی اداروں کی تحقیق، ان کی معاونت سے بصری روئیت کے نظام کو قائم رکھتے ہوئے نہ صرف روز روز کے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں بلکہ عوام کے اندر انتشار و ہیجان اور اٹھنے والے خوا مخواہ کے سوالات کا خاتمہ بھی ممکن ہے. ممکن ہے عوام پورے ملک میں ایک ہی دن روزے اور عیدین کے انعقاد پر متفق ہو جائیں، اندر کے  حالات غیر سرکاری روئیت ہلال کمیٹیاں اپنی اہمیت و وقعت خود ہی کھودیں گی.
نوٹ:تحریر میں معلومات کی کمی بیشی کے لئے معذرت خواہ ہوں…. احباب کی جانب سے مستند معلومات کا خیرمقدم کیا جائے گا . جزاک اللہ.

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply