اہل دانش اور علمی ابہام۔۔۔زاہد سرفراز

ہم جب علم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو یہ سمجھ کر اس میں داخل ہوتے ہیں کہ اس زندگی میں کچھ سیکھ اور جان لینے سے ہمارے مجموعی علم میں اضافہ ہو گا اور ہم دنیا میں زیادہ بہتر کردار ادا کر سکیں گے۔مگر افسوس علم کی دنیا میں بھی ٹھیک اسی طرح فریب، جہالت اور گمراہی موجود ہے جس طرح عام جاہل معاشرت میں موجود ہوتی ہے۔اس دور میں علم و دانش کے علم بردار یا تو انتہائی جھوٹے اور بددیانت ہوتے ہیں یا پھر انھیں خود بھی حقیقت کی خبر نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ علم ہوتا ہے  کہ اصل میں یہ کس چڑیا کا نام ہے۔چنانچہ وہ علم کا ڈھونگ رچائے سچ کے نام پر جھوٹ کی مالا جپتے عام مل جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے  کہ حق کا متلاشی کہاں جائے ،کہاں سے اپنی زندگی کے لیے سچ تخلیق کرے؟
الہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری !

ہم جب بھی کسی طرح کی سماجی تنظیم سازی کی بات کرتے ہیں تو اسکے لیے اصولی طور پر تین یا چار ہی ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں سے ہمیں بہترین سماجی تنظیمی ترکیب کو اختیار کرنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سلسلے میں درست رہنمائی فراہم کی جاتی ہے  بلکہ ہمارے اہل دانش اپنے ہی لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ زماں کے بدلنے سے مکاں بھی بدل جاتا ہے جبکہ زماں کا بدلنا مکاں کی تبدیلی سے مشروط نہیں ہوتا مگر انکے  مطابق زماں کے بدلنے سے معاشرے میں موجود انفرادی و اجتماعی انسانی اصول تک بدل جاتے ہیں باوجود اس کے کہ انسانی سماجی اکائیاں وہی رہتی ہیں جو ازل سے موجود ہیں فقط انسانی کردار بدلتے رہتے ہیں،جیسے مرد اور عورت ازل سے سماج کی دو بنیادی اکائیاں ہیں۔جو کبھی نہیں بدلتیں، اب جب بھی خاندانی نظام کی بات آئے گی تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسکی چار ہی ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں، مرد کی بالا دستی، عورت کی بالا دستی، دونوں کا اشتراک یا اجتماعی سطح پر افلاطونی کمیون، ان چار صورتوں کے علاوہ کوئی بھی اصولی خاندانی ترتیب ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح حکومتی تنظیم میں بھی چار ہی طرح کی اصولی تراکیب ممکن ہیں
خدا کی حکومت
فرد واحد کی حکومت
چند افراد کی حکومت
کثیر افراد کی حکومت
اب آتے ہیں معیشت کی تنظیم سازی کی طرف ،اس میں بھی چار ہی ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں یہ تنظیم دو مختلف اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو سکتی ہے  ارتکاز سرمایہ، عدم ارتکاز سرمایہ۔
ارتکاز سرمایہ کی تین ممکنہ صورتیں ہیں انفرادی سطح پر سرمائے کا ارتکاز، اجتماعی سطح پر سرمائے کا ارتکاز یا مخلوط ارتکاز سرمایہ جسے مخلوط معیشت بھی کہتے ہیں اور
چوتھی صورت انفرادی و اجتماعی سطح پر عدم ارتکاز سرمایہ کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے، جس میں ضرورت سے زائد سرمایہ تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح ہر سماجی تنظیم کی تین یا چار ہی ممکنہ اصولی صورتیں ہوتی ہیں جن پر تغیر زماں کا کوئی اثر واقع نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی معاشرتی تنظیم میں انفرادی اور اجتماعی اکائیاں مستقل رہتی ہیں بس سماجی کردار بدلتے رہتے ہیں۔زندگی کا ایک ہی اسٹیج ہے  اور اسکا ایک ہی ڈرامہ ہے  بس اس میں انسانی کردار بدلتے ہیں ہاں البتہ تغیر زماں سے اتنا فرق ضرور واقع ہوتا ہے کہ مادی ترقی کی وجہ سے زندگی کے اس ڈرامے کی پروڈیکشن و کاسٹنگ کے مادی وسائل میں پہلے کی بانسبت زیادہ بہتری پیدا ہو جاتی ہے  جو فی زمانہ ہوئی بھی  ہے، اس لحاظ سے زندگی کے ڈرامے میں مادی ترقی کے باعث پروڈیکشن اور اسکی کاسٹنگ تو محض ایک اضافی سہولت ہے چنانچہ زندگی کے اسٹیج پر چلنے والا یہ ڈرامہ اور اسکے بنیادی اصول ، انکی ترتیب کبھی نہیں بدلتے اس لیے یہ کہنا کہ نئے زمانے میں اصول زندگی بھی بدل جاتے ہیں یا آج کا سچ کل کا بہت بڑا جھوٹ ہوتا ہے ، یہ سب جہالت کے سوا کچھ نہیں یہ وہ جھوٹ ہے  جو سولہویں سترہویں صدی سے لے کر آج تلک لوگوں سے کثرت کے ساتھ تسلسل میں بولا جاتا رہا ہے  تاکہ ان کو اس شیطانی تنظیم معاشرت پر راضی رکھا جا سکے جس میں انسانی زندگی کو مجموعی طور پر ضائع کرنے کا ایک مستقل عمل جاری و ساری ہے
جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ابدی اصول کبھی نہیں بدلتے۔

یہ تو تھی اصولی طور پر ممکنہ معاشرتی تنظیم کی بات ۔اب ان تین یا چار ممکنہ تراکیب میں سے آپ کوئی بھی ترتیب لے لیں اس میں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس معاشرتی تنظیم کو چلایا کن اصولوں پر جائے اس میں بھی چار ہی ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں
خدائی احکامات کے مطابق
فرد واحد کی مرضی کے مطابق
چند افراد کی مرضی کے مطابق
یا پھر کثیر افراد کی مرضی کے مطابق

انہی چار طریقہ کار سے ضابطہ اصول زندگی مرتب ہوتا ہے، ان سے باہر کچھ نہیں ہوتا،لہذا یہ کہنا کہ زمانے کے تغیر میں اصول زندگی بھی بدل جاتے ہیں ایک بہت بڑے علمی جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں جو کثرت سے اہل دانش اور علم کے نام نہاد پاسباں کہیں صدیوں سے مسلسل بولتے چلے آ رہے ہیں اور اب یہ جھوٹ سماج کے مجموعی اذہان میں اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ اس نے باقاعدہ ایک ایمان کی شکل اختیار کر لی ہے جبکہ زندگی کا بہترین حل یہی تھا کہ ہر طرح کی معاشرتی تنظیم میں جو سب سے بہترین اصولی طریقہ زندگی ہے  اسکو اختیار کر لیا جائےاور باقی ہر قسم کی جہالت کو یک قلم جنبش  مسترد کر دیا جائے تاکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مجموعی انسانی زندگی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے مگر یہ سب کرے گا کون؟ ہمارے ہاں اہل دانش تو جھوٹ کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔

ہمارے یہاں سب سے دلچسپ صورت حال مذہبی طبقے کی ہے کوئی اسلامی سوشل ازم کی بات کرتا ہے تو کوئی سرمایہ داری اور اسکی لنگڑی جمہوریت کو گلے سے لگائے ہوئے ہے طوطا چشم اس قدر ہیں کہ دین کی طرف سے منہ پھیر کر اپنا قبلہ تک بدل چکے ہیں اب ان سب کا دین فقط سرمایہ داری ہے  یہ سب خدا کی زمین پر جنتی سماج کے قیام کے تصور کو بھلا کر سرمایہ دارانہ حیوانیت کے کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں جبکہ عقل سے عاری دینی تشریحات محض گمراہی اور جہالت کا سبب ہیں،
آ ساتھ میرے اور دیکھ ذرا
جس دنیا میں تو رہتا ہے
یہ دنیا ایک تماشا ہے
اور سب انسان مداری ہیں

کیا کہتے ہیں ، کیا کرتے ہیں،
اور کیا کیا کھیل دکھاتے ہیں
یہ لیڈر ، ووٹر ، پیر ، مرید
عاشق ، معشوق مداری ہیں

ان چہرہ بدلنے والوں کو
انصاف ، حقوق ، وفا سے کیا؟
یہ ڈاکو ، تاجر ، چور افسر ،
شاگرد ، استاد مداری ہیں

آ دیکھ میری آنکھوں سے انہیں
ان سب کے ہاتھ میں جھرلو ہے
یہ قوم کے خادم ، دانشور ،
فن کار ، وزیر ، مداری ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

آئین ، الیکشن ، یو این او
انصاف ، حقوق انسانی
اے بچہ جمہورا یہ باتیں
جو کرتے ہیں وہ مداری ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply