کچھ ذکر ماحول کا اے چارہ گراں

ویسے مجھے کوئی ایلرجی وغیرہ نہیں اور میرے پھیپبڑے کراچی کی فضائی آلودگی دھوئیں اور گرد کے عادی ہیں، مگر جب پچھلے ہفتے لاھور میں قیام کے دوران جس دن سے یہ اسموگ پڑنا شروع ہوا تو مجھے آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوئی، اور رات کو محسوس ہوا کہ سینہ جکڑ چکا ہے کیونکہ سانس کے ساتھ سوں سوں کی آوازیں آرہی تھیں، یہ کیفیت میرے لئے بالکل نئی تھی کیونکہ نہ تو سردی لگی تھی اور نہ ہی نزلے یا فلو کی علامات تھیں، مگر ایسا لگ رہا تھا گویا پھیپھڑے بالکل چوک ہوگئے ہوں۔ پھر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسموگ کا چرچا دیکھ کر یہ انکشاف ہوا کہ میں اسموگ کا شکار ہوگیا ہوں، جس کے اثرات ابھی تک ہیں۔

اسموگ دراصل دراصل فوگ یعنی دھند اور اسموک یا دھوئیں کا مخفف ہے۔ یہ ایک پیچیدہ ماحولیاتی مظہر ہے جو عمومی طور پر سردیوں کےآغاز میں ملک کے بیشتر علاقوں، بالخصوص پنجاب میں دیکھنے کو ملتا ہے، اس عمل میں گاڑیوں اور کارخانوں کا دھواں اور گیسیں، گرد و غبار اور پانی کے بخارات، سورج کی شعاؤں کے ساتھ ردعمل کرکے اوزون اور دوسرے فوٹو کیمیائی مادوں کی تخلیق کرتے ہیں، جو ملکر ایک دھند کی تخلیق کرتے ہیں جو کم درجہ حرارت کی وجہ سے ہوا بھاری ہونے کی وجہ سے بادلوں کی شکل میں زمین پر آجاتی ہے اور ماحول کو دھندلادیتی ہے، شہری ہوابازی کا نظام متاثر ہوتا ہے، حد نظر میں بے حد کمی ہوجاتی ہے جو سڑکوں پر حادثات کا موجب بنتی ہے۔
نئی دھلی اور لاھور جیسے بڑے شہروں میں اسموگ کافی دبیز ہوتی جارہی ہے، جسکا سبب روزافزوں آلودگی میں اضافہ ہے۔ ہمارے ہاں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ، اینٹیں بنانے والے بھٹے بھی بے تحاشہ آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں، اینٹوں کے بھٹوں میں پلاسٹ کا کچرا اور پرانے ٹائر جارہے ہیں جو کینسر پیدا کرنے والی خطرناک گیسوں مثلا ڈائی آکسن کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں، اسکے علاوہ شہروں میں کچرا جلائے جانا بھی ایک خطرناک طریقی ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسموگ کے اتنے شدید ہونے کا بڑا سبب بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں فصلیں کٹنے کے بعد انکا بچے ہوئے کچرے کا بڑے پیمانے پر جلایا جانا ہے، جس سے پیدا شدہ دھواں ٹریفک اور کارخانوں کے دھوئیں اور دیگر فضائی آلودگی کے ساتھ ملکر اسموگ بناتا ہے۔
موجودہ صورت حال بگڑ کر ایک ماحولیاتی ایمرجنسی کی شکل اختیار کر سکتی ہے، اقتصادی ترقی کے ساتھ ضروری ہے کہ عوام کی صحت کا بھی خیال رکھا جائے ورنہ یہ میٹرو، ہائی ویز، اور ساری ترقی دھری دھری رہ جائگی
فی الحال اس مسلے کا کوئی فوری حل موجود نہیں سوائے اسکے کہ بارش ہوجائے اور فضا کچھ دنوں کے لئے دھل جائے، مگر ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا جاسکتا، فوری طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے؛

Advertisements
julia rana solicitors london

۔ عوام میں آگاہی کی مہم چلائی جائے اور انہیں ماسک پہننے کو کہا جائے
۔ فصلوں کے کچرے، شہروں کے کچرے اور صنعتی کچرا جلانے پر سخت پابندی لگائی جائے
۔ اینٹوں کے بھٹوں کی مانیٹرنگ کی جائے اور انہیں نسبتا صاف ایندھن استعمال کرنے کا پابند کیا جائے، بھٹوں کو جدید ٹکنالوجی کی مدد سے کم آلودگی پیدا کرنے والا بنایا جائے
۔ کارخانوں پر ماحولیاتی قوانین اور معیار کا سختی سے پابند بنایا جائے
۔ شہروں میں دو اسٹروک انجن والی موٹر سائکلوں، رکشوں، سوزوکی پک اپس پر پابندی لگادی جائے اور دیگر گاڑیوں کو دھواں چھوڑنے پر بند کردیا جائے
۔ اسپتالوں میں الرجی، دمہ اور آلودگی سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں

Facebook Comments

تنویر عارف
تنویر عارف ماحولیات اور دیرپا ترقی پر کام کرنے والے پرجوش کارکن ہین اور سماج کی مثبت تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں، انکو شطرج اور کرکٹ سے دلچسپی ہے، پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ریاست دیکھنا چاھتے ہیں اور اسکے لئے ہم خیال افراد کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply