یہ جنازے قضا ہوگئے خان۔۔عارف انیس

چھ مہینے ہوگئے، سیاست اور حالات حاضرہ پر لکھنا چھوڑ دیا.

وجہ وہی ہے جو سب جانتے ہیں، حالات حاضرہ ستر سال سے پرانے ہی ہیں. ہماری سیاست کی کان ایسی ہے کہ جو اس میں گھستا ہے وہ پہلے کا ہمشکل ہوجاتا ہے اور تو من شدی، من تو شدی والا معاملہ ہو جاتا ہے. اس دفعہ جو وزیراعظم ہاؤس پہنچا، اس کے لیے برسوں نعرے لگائے تھے، قصیدے کہے تھے، کہانیاں تراشی تھیں. گو کہ 2015 کے بعد لب سی لیے تھے کہ لکھا دیوار پر نظر آنے لگا تھا، مگر پھر بھی بار تو تھا.

سوچا، صرف اور صرف زندگی پر لکھا جائے. صبح بخیر پر لکھا جائے. صرف مثبت خبر پر لکھا جائے. باقی آنکھوں پر پٹی باندھ لی جائے. ہزاروں کے استقلال نے، ان کی چپ نے رلا دیا. جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور جب خون جگر برفاب ہوا تو چپ چاپ ہزارے جیت گئے.

بیرون ملک سے اربوں نہ آنے تھے، نہ آئے. کروڑ نوکریاں نہیں لگنی تھیں، نہ لگیں. خارجہ پالیسی آزاد نہ ہونا تھی، نہ ہوئی. ڈیڑھ کروڑ گھر نہ بننا تھے، نہ بنے. تھانے، پٹوار، ٹیکس کا نظام نہ سدھرنا تھا، نہ سدھرا. نوکر شاہی کا قبلہ نہ سنورنا تھا، نہ سنورا. تم ڈچ وزیر اعظم کی طرح سائیکل پر دفتر بھی نہ گئے. ریل کے حادثے پر استعفیٰ نہ دیا، نہ لیا. تمہارا نوٹس ٹھٹھا بن گیا. کابینہ کا حجم کم نہ ہونا تھا، نہ ہوا. نوٹنکی ایک واحد چیز ہے جو پاکستان کی ہر جانے والی حکومت آنے والی حکومت کے حوالے کرجاتی ہے. وہی نظر آئی، کوئی بات نہیں. یہ سات خون معاف کر دیے.

مگر تعزیت کی قضا کیسے ادا ہوگی خان؟

اشفاق احمد کہتے تھے، ہمارے پاکستانی کو جتنا مرضی بے وقوف بنا لو، استحصال کرلو، مگر بس رونے کے لیے کندھا دے دو، وہ تمہیں پھر بھی معاف کر دے گا. تم نے تو وہ کندھا بھی سکیڑ لیا خان؟

پچھلے دس ماہ “میڈ ان کرائسس” لکھنے میں گزارے جو ابھی پچھلے ہفتے ہی ریلیز ہوئی. کتاب لکھتے ہوئے میں اور قیصر عباس دونوں کئی دفعہ ششدر رہ گئے کیونکہ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ لیڈرشپ کی تعریف کورونا وائرس کے بحران میں ایک نئی کروٹ لے گئی ہے. اب آنے والی دنیا کے لیڈر کرشماتی شخصیت والے، سوہنے اور من موہنے اور بڑ بولے لوگ نہیں رہیں گے. اس بدلتی ہوئی دنیا کی ماڈل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن جیسے لوگ ہوں گے جن کا سب سے بڑا لیڈرشپ مسل “کمپیشن” ہوگا. شفقت، محروموں کو گلے لگانے والے لوگ، سر پر چادر رکھنے والے لوگ. اور آہنی عزم اور ارادے والے لوگ.

خان تم تو جیسنڈا آرڈن سے کہیں کمتر نکلے. وہ اپنے ملک کے مہاجروں کے ساتھ روئی اور اس نے انہیں اپنا کندھا پیش کردیا. تم نے تو اپنوں کے لئے انا کا مسئلہ بنا لیا. ضد لگا لی. تم تو قوم کے باپ تھے خان! اگر لیڈر نہیں ہو تو ایکٹنگ ہی کر لو. یہ تمہارا آٹو گراف نہیں مانگتے لوگ ڈیم اٹ.تم کرکٹ کے کھلاڑی سے کب بڑے ہوگے خان؟ تم لیڈر نہیں کھجور کا درخت ہو، جب سائے کی ضرورت پڑے تو تم اپنے پتے سکیڑ لو. جب بھوک لگے تو اپنا پھل اوپر کھینچ لو.

تمہاری نفسیات کو جانتے ہوئے میں کچھ دوستوں کے ساتھ شرط لگائے بیٹھا تھا کہ تم کوئٹہ جانا قبول کر لوگے، مگر اس وقت جب تم اپنی لٹیا ڈبو بیٹھو گے. اپنا کٹھور پن عریاں کر بیٹھو گے اور پھر ہم جیسوں کے قصیدے بھی تمہارے کام نہ آئیں گے.

Advertisements
julia rana solicitors london

شریف، زرداری نوٹنکی سے تو ہم وقف ہیں ہی اور ان کے فریب کی تہوں اور تیوروں سے واقف ہیں. وزیراعظم کی کرسی تمہاری ساری متھ اور داستان کو بھی نگل گئی. اب تم ایسے ہی ایک وزیراعظم ہو جیسے تم سے پہلے درجنوں گزرے اور مزید گزریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply