ہم تیار نہیں ہیں۔۔مسعود چوہدری

غیر فطری و بے مثال صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر فطری و بے مثال اقدامات کا کیا جانا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی رویے ہی قوموں کے مستقبل کی نشاندہی کیا کرتے ہیں۔ کسی بھی افراتفری کے ماحول میں قوم کے بڑوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ قوم کو نہ صرف آنے والے خطرات کے لیے عملی طور پر تیار کریں بلکہ خود ایک مثال بن کر سب کو ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جوڑ دیں جیسے ایک سیسہ پلائی دیوار۔ اسی کام کے لیے اللہ رب العزت کسی بھی شخص کو اقتدار و اختیار سے نوازتا ہے کہ وہ فلاح کی ایک عمدہ مثال قائم کر سکے۔ اب خواہ وہ اختیار چند لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا ہو، پورے ملک، پورے خطہ، یا پوری دنیا کا ہو۔ جتنا زیادہ اختیار، اتنی بڑی آزمائش اور اتنی ہی بڑی جزا و سزا۔ جتنی جلدی حضرت انسان اس مسلمہ حقیقت کو پہچان لیتا ہے اتنی ہی جلدی وہ اللہ رب العزت کے پاس اپنے حقیقی مقام کو پا لیتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے مقام کی سربلندی کے لیے آگے کی جستجو کا قصد کرتا ہے۔ یہ الفاظ شاید چند لوگوں کے لیے مشکل اور نہ سمجھ میں آنے والے ہوں لیکن ایک خیال کا آپ تک پہنچانا مقصود ہے۔ ماضی کی تحریروں پر حوصلہ افزائی کرنے والے تمام دوست،بھائی، اور قارئین کا شکریہ کہ اس سے راقم کو مشکل باتیں پُر اعتماد انداز میں کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ جزاک اللہ خیر!

اس تمہید کا مقصد آج کی صورتحال کے متعلق وہ چند حقائق آپ کے گوش گزار کرنا ہیں جو کہ بحیثیت محب وطن پاکستانی ہمارے آنے والے حالات کی تیاری کے لیے انتہائی اہم ہیں، جبکہ دوسری جانب صاحب اقتدار کو درست اور حقیقی سچائی سے بھی آگاہ کرنا ہے تاکہ جب ان سے سوال کیا جائے کہ آپ کا کردار کیا تھا؟ تو وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔ دراصل ہم اہل قلم کا یہ ہی اصل کام ہے کہ پورا سچ مکمل ذمہ داری کے ساتھ ارباب اختیار تک پہنچائیں خواہ ان کا اختیار کم ہو یا زیادہ۔ بلاشبہ تمام اختیارات کا مالک میرا پیارا اللہ رب العزت ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

جب مسلمان قوم پر کڑی آزمائش وارد ہوتی ہے تو قوم کو اللہ رب العزت کی جانب رجوع کی اہم ترین ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کو اللہ رب العزت کے قرب سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے لیکن آخر کار انسان تو انسان ہی ہے اور انسان کی تخلیق ایسی ہی ہے کہ جب راحت پاتا ہے تو غافل ہو جاتا اور پھر جب کوئی تنگی پریشانی اسے گھیر لیتی ہے تو اللہ رب العزت سے رجوع کرتا ہے۔ گو کہ اگر غافل ہی نہ ہو اور اللہ رب العزت کو ہمیشہ یاد رکھے تو دوست دوستوں پر آنچ نہیں آنے دیتے اور شجر سایہ دار کی طرح ہمیشہ دھوپ، آندھی، طوفان سے بچائے رکھتے ہیں۔ ضرورت رجوع الٰہی  کے تحت اسلامی ملک میں، کہ جہاں کی اٹھانوے فیصد کے لگ بھگ آبادی اللہ رب العزت کی وحدانیت کا دم بھرنے والی ہو، ارباب اختیار معاشرہ کو جوڑنے کی نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ عملی طور پر اس کا نمونہ بھی پیش کرتے ہیں۔ انتہائی دکھ اور تکلیف کے ساتھ عرض کر دوں کہ ہمارے حکمران نہ صرف قوم کو اللہ رب العزت سے دور کرنے کے درپے ہیں بلکہ عملی طور پر خود بھی اللہ رب العزت کی جانب رجوع کرنے کے بجائے اپنی ذاتیات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا آپ نے جس دن سے پاکستان میں اس موذی وباء نے جنم لیا ہے کسی ایک حکمران کو نماز پڑھتے، مسجد کا رخ کرتے اور قوم کو اللہ رب العزت کی جانب رجوع کرنے کی ترغیب دیتے دیکھا ہے؟ معذرت کے ساتھ، خادم نے نہیں دیکھا! ایک بھی دستاویزی ثبوت ریکارڈ کا حصہ نہ بن سکا کہ وزیراعظم، صدر، وزراء، بیوروکریسی، اور دیگر ارباب اختیار نے نماز ادا کی ہو یا مساجد کا دورہ ہی کیا ہو یا ترغیب ہی دلائی  ہو کہ اللہ رب العزت سے اجتماعی توبہ کی جائے اور اللہ رب العزت کی جانب رجوع کیا جائے۔ ہاں یہ خبریں ضرور سنیں کہ مساجد کو تقریباً بند کر دیا جائے۔ جس پر تفرقہ پرستی کو ہوا ملی اور دوسری طرف انتہائی فضول معلومات کا تبادلہ کیا گیا کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے وباء پھیل رہی ہے تو ایران سے آنے والے زائرین کی وجہ سے تاکہ لوگ چار و ناچار بھی کم یا زیادہ جتنا بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اس سے بھی دور ہو جائیں۔

دیگر رویوں اور حقائق کی طرف آنے پہلے اس بات کو واضح کر دوں کہ ہمیں تقسیم کرنے کو ہزاروں ایشوز موجود ہیں جبکہ جو ہمیں ایک جگہ متحد و مجتمع کرتی ہے وہ اللہ رب العزت کی ذات بابرکات ہے کہ ہم سب ہی اللہ رب العزت کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ آپ قوم کو کہتے کہ مسلمانو! اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو! ذہن سازی کرتے! عملی نمونہ پیش کرتے،خود سربسجود ہوتے، معافی مانگتے، توبہ کرتے،خود اللہ کی طرف رجوع کرتے دکھائی دیتے اور قوم کو ترغیب دیتے، لیکن آپ کو تو نہ جانے کس خبط نے گھیر رکھا ہے کہ آپ اس سے باہر نکلنے کو  تیار ہی نہیں، یا شاید آپ باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو آرہا ہے اور جو آچکا ہے اس کے لیے “ہم تیار نہیں ہیں”۔

رمضان المبارک سے پہلے چینی ایک سو دس روپے کلو اور آٹا مارکیٹ سے غائب ہو جائے گا ۔ آٹا چینی پر کمیشن رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سوال کرنے والے شدت سے یہ سوال کر رہے ہیں۔ اس بحث میں جائے بغیر کہ مستقبل میں ریٹ کیا ہو گا اور عوام کو کس اذیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اصل محرکات بد انتظامی و بدعنوانی ہیں۔ دکھ یہ نہیں کہ یہ ہیں بلکہ دکھ یہ ہے کہ یہ اسی طرح رہنے والی ہیں۔ اور جب تک یہ بد انتظامی و بدعنوانی اپنی جگہ قائم ہے دیگر تمام مشکلات جن کا سامنا ہمارا عام، سفید پوش اور غریب پاکستانی دن رات کر رہا ہے وہ بھی اسی طرح کے ہی رہنے والے ہیں۔

رپورٹ سے متعلق انتہائی غیر ضروری معلومات اور معاملات اس وقت پورا ملک زیر بحث لائے ہوئے ہے لیکن اصل سوال کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ فرض کریں صبح مارکیٹ سے آٹا، چینی، دالیں اور دیگر اشیاء خورد و نوش اچانک سے مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہیں، تو؟۔۔ کیا ہو گا؟ کیا ہم مافیا کے ساتھ مافیا کی لڑائی کروا سکتے ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو غربت مافیا کی افلاس مافیا سے کب کی کروا چکے ہوتے اور پھر استحصال مافیا کی لاقانونیت مافیا کے ساتھ کرواتے اور جو سب سے آخر میں بچتا وہ اتنا کمزور ہو چکا ہوتا کہ بھوکے کے منہ سے نوالہ چھیننے کی سکت نہ رکھتا ہوتا لیکن صد افسوس۔۔ کہ “ہم تیار نہیں ہیں”۔

کوئٹہ میں ماسک اور پروٹیکٹو کٹیں مانگنے پر ماسک لگائے پولیس اہلکاروں نے ڈاکٹروں اور نرسوں پر ڈنڈے برسا دیئے اور چند دن پہلے تک سلیوٹ وصول کرنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ انسانیت دنگ رہ گئی۔ جس دن سلیوٹ کی خبر خادم کو پیارے بھائی اور معروف صحافی و کالم نگار ساجد ہدایت صاحب نے دی تھی، فی البدیع و بے اختیار منہ سے الفاظ نکلے تھے کہ “چار دنوں کی چاندنی ہے، پھر اندھیری رات ہے، ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈک سٹاف کو بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے”۔ راقم یہ نہیں جانتا تھا کہ ابھی ادا کیے گئے الفاظ کی گہرائی تک کو بھی نہ پہنچا گیا ہو گا کہ سب خوش فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ کیوں؟ کیونکہ راقم نے ماضی قریب و بعید میں لاہور مال روڈ اور کراچی پریس کلب سمیت پورے ملک کے سینکڑوں نہیں تو کم از کم درجنوں مرتبہ ڈاکٹروں، نرسوں، اور پیرا میڈک سٹاف کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا نہ صرف دیکھا بلکہ رپورٹ بھی کیا۔

اگر آپ کسی کے مستقبل کے رویوں کی پیش گوئی کرنا چاہتے ہیں تو اسکے ماضی کے کردار پر ایک نظر ضرور ڈال لیں۔ وجہ؟ چند کڑوی باتیں کہہ دوں کہ حق کوجان بوجھ کر چھپانا بھی بددیانتی ہے اور میرے پیارے آقا و مولیٰ ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ “لا ایمان لمن لا امانتہ لہ” اسکا ایمان نہیں جسے امانت کا پاس نہیں۔ جناب ہم نے قوم کی تربیت ہی نہیں کی۔ ہم نے جولیا وہ اغیار سے ادھار لیا۔ اور آج بھی جو ہم لینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ انہی  سے ہے۔ ہم آج بھی انہی  کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے مسلم روایات کا امین کبھی اپنے پولیس کے شیر جوانوں کو بنایا ہی نہیں۔ ہماری پولیس کیا ہر صاحب اقتدار و اختیار کے الفاظ و عادات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پل میں تولہ، پل میں ماشہ ہونا منافقت کہلاتا ہے اور ہمارا صاحب اقتدار و اختیار اس وقت تک ترقی ہی نہیں کر پاتا جب تک وہ منافقت کی منازل نہیں طے کر لیتا۔ صاحب اقتدار و اختیار کے بارے میں یہ مقولہ بھی زبان زد خاص و عام ہے کہ “جو جتنی زیادہ نمازیں پڑھتا ہے اتنا ہی زیادہ رشوت خور ہے”۔ درست فرمایا! تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن آٹے میں نمک کو کیا نمک کہا جا سکتا ہے؟ اللہ نہ کرے کہ یہ وہی لوگ ہوں جن کی نمازیں قیامت کے روز ان کے منہ  پر دے ماری جائیں گی ان کی ریاکاری اور دکھاوے کے سبب۔

لیکن دوسری جانب دیکھیں تو انکے کردار کس نے بنانے تھے؟ یہ بحث اور اس سے جڑی دیگر ابحاث آج کا موضوع بحث نہیں لہذا یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جن کردار کے غازیوں کی اس طرح کے معاملات سے نبرد آزماء ہونے کے لیے ضرورت ہوتی ہے وہ فیکٹریاں آپ کب کی بند کر چکے۔

پیارے بھائی اور لیگل ایڈوائزر کیپٹل یونین آف جرنلسٹس حارث یزدان خان ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ وکلاء کے لیے ناگہانی آفت سے نبرد آزماء ہونے کے لیے کوئی مراعات موجود نہیں ہیں۔ میری عرض یہ ہے کہ پورے پاکستان میں ہی کسی بھی پاکستانی کے لیے ناگہانی آفات یا مشکلات سے نبرد آزماء ہونے کے لیے ایک فلاحی ریاست میں جو لازم و ملزوم حقوق دیئے جانے چاہئیں  ہیں ان کا عشر و عشیر بھی نہیں دیا جا رہا۔ ایک سات لاکھ کے انصاف صحت کارڈ کی مثال لے لیں کہ کرونا کا ایک سستا سا ٹیسٹ تک نہیں ہو سکتا اس سے۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ جس عوام کی فلاح کا ہم دم بھرتے ہیں اور جو اعداد و شمار ہم عوام کے سامنے اپنی ذات کو ممتاز دکھانے کے لیے پیش کرتے ہیں ان کے اصل حقائق انتہائی دل دہلا دینے والے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ “کوئی بندہ کام نہیں کر رہا، سب فنڈز کی بات کر رہے ہیں”۔

چیف جسٹس پاکستان کو اٹارنی جنرل سے سپریم کورٹ میں موجود ڈسپنسری کو بند کرنے کے خط پر پوچھنا پڑا کہ “کیا اس طرح اس وبا سے نمٹا جا رہا ہے؟” اسی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا پر چیف جسٹس پاکستان کو اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہنا پڑا کہ وہ ” ان کیمرہ کیا بریفنگ دیں گے، عدالت کو سب پتہ ہے”۔ بلا شبہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن یاد رکھیں جج اندھا نہیں ہوتا۔ احساس پروگرام پر جب چیک کیا گیا تو سابق وفاقی وزیر اور دیگر کئی بھی فنڈز کے حقدار نکلے جبکہ حکومتی سبسڈی کا یہ عالم ہے کہ بجلی کے بل کئی گنا زیادہ کر کے اس میں سے رقم منہا کر کے مصیبت میں پھنسی قوم کو کہا جا رہا ہے کہ دیکھیں آپ کی مہربان گورنمنٹ نے آپ پر کتنا احسان کر دیا ہے کہ اتنے پیسے معاف کر دیئے جبکہ درحقیقت صارف اپنے بل سے کئی گنا زیادہ پہلے ہی ادا کر رہا ہے۔ عوام کے ساتھ فراڈ کرنے والے اور جعلسازی کے ساتھ عوام کو لوٹنے والے اپنے کیسوں کو ختم کروانے اور حکومت سے ریلیف حاصل کرنے کی غرض سے وزیراعظم کو غریبوں کے لیے چندہ جمع کروا رہے ہیں۔ چندہ دینے سے کیا وہ داغ دھل جائیں گے جو آپ کی بوسکیوں اور لٹھوں پر لگے ہیں؟ اس سارے گورکھ دھندے میں جو حقیقت سمجھ میں آنے والی ہے وہ فقط اتنی ہے کہ”ہم تیار نہیں ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس طرح بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسی طرح تفرقہ پرست و بدعنوان کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ جس طرح بھوک بندہ کھا جاتی ہے اسی طرح تقسیم در تقسیم، بدعنوانی اور غیر سنجیدہ رویے بھی مملکت کھاجاتے ہیں۔کالم نگار اور بھائی امتیاز علی شاکر نے میرے سابقہ کالم پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ” ہم تیار نہیں تھے، ہم تیار نہیں ہیں، اور اپنے رویے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم کبھی تیار ہوں گے بھی نہیں”۔ بلا شبہ انسان کو گمان اچھا رکھنا چاہیے لیکن افسوس یہ ہے کہ الفاظ میں ہم اصلاح کی بات تو کرتے ہیں لیکن خود دریا کے دوسرے کنارے پر اپنے ہی الفاظ کی خلاف ورزی کرتے پائے جاتے ہیں ۔ ایک وباء ہمارے در پر دستک دے چکی جبکہ مالیاتی اور سیاسی بحران ہمارے دروازوں پر دستک دینے جا رہے ہیں۔ جبکہ تیسری طرف ہمارے دشمن اس تاک میں ہیں کہ کب ہم کمزور ہوں اور وہ اپنا داؤ آزمائیں۔ ان حالات میں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لڑ کر مد مقابل کو زیر کر سکتے ہیں تو یہ آپکی خام خیالی ہے کیونکہ “ہم تیار نہیں ہیں” بے شک اللہ رب العزت کا فضل اور رحمت ہی ہے جو ہمیں بچا سکتا ہے لیکن اس فضل اور رحمت کے حصول کے لیے بھی تو “ہم تیار نہیں ہیں”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply