کیا امن ہوگا؟ در پردہ وجوہات

ملک میں ہر طرف آپریشن ردالفساد جاری ہے ،گاہے بگاہے دیگر ادارے اور حکومتی مشینری بھی اکا دُکا کام کرتی نظر آتی ہے جس کو آٹے میں نمک کے برابر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، عوام الناس اپنی یہ رائے قائم کرنے میں حق بجانب ہے کہ اکثریت حکمرانوں کی اپنی ذمہ داری سے بھاگتی نظر آتی ہے۔وہ سیاست ہو یا نام نہاد آزاد عدلیہ۔۔۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ عدالت میں فرعون کی لاش کی طرح حنوط کرکے مقام عبرت بنا کر رکھا گیا اور یہ عبرت ملزم و مجرم کہلانے والوں کے لئے حوصلہ بڑھانے کا باعث رہی نیز کبھی عوام الناس اس انتظار کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے کہ نہ جانے آئندہ گھنٹوں میں کیا ہوگا مگر دن پر دن گزرتے چلے جانے سے فیصلہ بھی مذاق بنتا رہا۔تاہم درج بالا چشم کشا حقائق کے بعد ہم پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند تو نہیں کرسکتے مگر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال کس طرح قائم ہوسکتی ہے پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں کا پھل ہم کیسے پا سکتے ہیں ،ملک میں انتشار کس بات سےپھیلتا ہے اورکیا بات ہے کہ گزشتہ سالوں میں آپریشن پر آپریشن تو ہورہے ہیں مگر جو نتائج ہم چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں ہو پارہے ہم اپنے ہی سرحدوں کے جوان کھوتے چلے جارہےہیں مگر امن کی صورت حال میں کچھ خاص فرق پڑتا نظر نہیں آرہا۔
ہم سب ملک میں امن امن کی رٹ تو لگا رہے ہیں مگرکوئی فردِ واحد بحیثیت پاکستانی کوشش کرنے کو تیار نہیں ۔ہم زبردستی مقابلے تو کرانے میں کامیاب ہو گئے مگر انسانیت کے قتل کی سوچ کو بدل نہیں پارہے ۔ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک تمام سیاست دان و حکومتی مشینری یکجا ہو کر اپنا اپنا فرض احسن طور پر نہ نبھائے۔ملک میں کہنے کو تو نیشنل ایکشن پلان پر کام ہورہا ہے مگر آج بھی مذہب کے نام پر دن دیہاڑے انسان قتل کئے جاتے ہیں سر عام وکیل پروفیسر قتل کیا جاتے ہیں حکومتی مشینری ذمہ داری قبول کرنے والوں کو جانتی ہے قاتل تک سراغ لگ جاتا ہے تاہم کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آتی۔مزار، پیر و مرشد کے دھندے میں انسانیت کا خون کیا جاتا ہے مذہبی جذبات و مزاری دھندے میں شراب نوشی جیسے گھناؤنے انکشافات ہوتے ہیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔کیا ان حالات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا رہے ہیں ؟کیا تھرڈ ڈگری کی سیاست امن قائم کرنے میں ہماری معاون و مددگار ہوگی؟جہاں الزام تراشیوں کی سیاست ہو،جہاں ضمیر بکتے ہوں۔کیا ہم اپنے پاک فوج کےجوانوں کی قربانیاں کہیں سیاست کی بھینٹ تو نہیں اتار رہے ؟ جو ہر محاذ پر سر پر کفن باندھے دوڑے چلے آتے ہیں جبکہ ہم سب اپنےاپنے ذاتی مفاد کی سیاست میں گھرےپڑے ہیں کیا اس سے امن ہو جائے گا؟ذرا سوچئے اور فیصلہ کیجئے کہ اب ملک و قوم کے لئے ہر سطح پر امن کے لئے کوشش کرنی ہے اور اس کے لئے ذاتی مفاد نہیں بلکہ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے ذمہ داریوں کو احسن طور پر نبھانے کی ضرورت ہے ۔ملک و قوم کے مفاد کو ہر دل عزیز بنانے کی ضرورت ہے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونے سے ہی ہم امن کی راہوں پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

Facebook Comments

دانش احمد شہزاد
اعزازی مصنف گلوبل سائنس کراچی،پریس رپورٹر ہفت روزہ سوہنی دھرتی، پریس رپورٹر ہفت روزہ ایف آئی آر کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply