کٹ پیس اور میری غیر حاضری۔۔ذیشان نور خلجی

وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے ” 2020ء تبدیلی کا نہیں، ترقی کا سال ہے۔” 2019ء میں ہم پورا سال تبدیلی کی کوششیں کرتے رہے۔ لیکن تبدیلی نہ آ سکی۔ الٹا ہمارے بارے عوامی خیالات تبدیل ہونے لگے۔ سو ہم نے اندازہ لگایا امسال عوام تبدیلی کے لالی پاپ سے نہیں بہلنے والے۔ اس لئے اب ترقی کا شوشہ چھوڑا جائے۔
انہوں نے مزید کہا ” بھارتی آرمی چیف کا بیان بہت غیر ذمہ دارانہ ہے۔” حالانکہ ایسا احمقانہ پن صرف ہماری حکومت کو سوٹ کرتا ہے۔ اور ایسی باتیں فواد چودھری، شیخ رشید اور سب سے بڑھ کے عمران خان کے منہ پہ ہی جچتی ہیں۔ اس لئے بھارتی چیف ہوش کے ناخن لے اور ہماری کاپی مت کرے۔
اعجاز شاہ کا کہنا تھا ” کرکٹ میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔” اور نہ ہی سیاست میں کسی کرکٹر کا دخل ہونا چاہیے۔ ورنہ اس کے بھونڈے نتائج سے تو آپ سبھی لوگ واقف ہوچکے ہیں۔ لہذا آئندہ محتاط رہیے گا۔
انہوں نے مزید کہا ” ‏مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کے 10سال ملک کیلئے بدترین تھے۔” اور ہمیں ابھی صرف ایک سال ہوا ہے موقع ملے ہوئے۔ لیکن پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری طرف سے کوئی کسر نہ رہے اور عوام اس ایک سال کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے ” حکمران قوم کو مایوس کر رہے ہیں۔”ایسے مایوس لوگوں کو حکیم سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر مناسب سمجھیں تو مجھ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں ۔ سیاست میں بھی سب ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے، آج کل فارغ ہی ہوں اور کرنے کو کچھ ہے نہیں۔ تو ایسے میں قوم کو تو گرم رکھا جائے۔
وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا ہے ” ‏ایم کیو ایم اور باقی اتحادی جماعتوں کواپنا بھائی سمجھتے ہیں۔”
؂ آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
بے شک ہمارے اتحادی مثل برادران یوسف ہیں۔ لیکن ان میں اور یوسف علیہ السلام کے بھائیوں میں ایک فرق ضرور ہے۔ کہ برادران یوسف کنویں میں گرانے تک محدود تھے۔ جب کہ ہمارے اتحادی بھائی ٹانگیں کھینچنے کی اضافی صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ کہ کھینچ کھنچائی کا کام، پہلے ہی اپوزیشن احسن طریقے سے انجام دے رہی تھی۔

اب کچھ بات ہو جائے غیر حاضری کی۔۔
گزرے بیس دن کافی مصروفیت رہی۔ اس حوالے سے، میں قابل احترام ایڈیٹر سے پیشگی معذرت کر چکا تھا ۔
دراصل ہمارے ہاں شادیوں کا ایک لمبا چوڑا سیزن شروع ہوا چاہتا تھا۔ تو یکسوئی کے لئے ضروری تھا کہ صرف ایک کام پہ توجہ دی جائے۔ آپ تو جانتے ہیں یہاں رشتہ ڈھونڈنے کا تسلی بخش کام بھی، دوست احباب کی شادیوں پہ انجام پاتا ہے۔اور ادھر تو ایسا سماں بندھا تھا کہ میرے خیال میں، خلجی فیملی کو اندازہ ہو چلا تھا کہ یہ آخری سال ہے اور اس کے بعد شادیوں پہ پابندی لگ جانی ہے۔ سو خاندان کے بڑوں نے اگلے پچھلے تمام کنواروں کو لائن حاضر کر لیا۔
ویسے بھی موجودہ حکومت، جیسے مہنگائی کے بینڈ بجا رہی ہے اور ٹیکس کے راگ الاپ رہی ہے۔ تو مجھے بھی خدشہ تھا آئندہ سال اگر شادیوں پہ پابندی نہ بھی لگی، پھر بھی ٹیکس تو ضرور لگے گا ۔اس لئے اس شادی سیزن، اپنے تئیں میں نے بھی بہت کوششیں کی۔ لیکن تہی داماں ہی رہا۔ ایک تو گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے گیزر چالو نہ ہو سکا۔ دوسرا ماہرین علم نجوم کی خدمات لینے پہ معلوم ہوا۔ کہ میرے والی حسینہ ماہ جبینہ یعنی مس ورلڈ ابھی تک عالم ارواح میں ہی کہیں مقیم ہیں۔ اور باوجود کوشش کے، ابھی تک پیدا نہیں ہوسکیں۔ سو صبر کے کڑوے گھونٹ پینے پڑے۔
اور اب مشتاق احمد یوسفی مرحوم و مغفور کے مشورے پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے، منٹو رحمۃ اللہ علیہ کے افسانوں کا ایک سیٹ، جو ٹھنڈے گرم گوشت اور کالی پیلی شلواروں جیسے افسانوں پر مشتمل ہے، سرہانے رکھ کے سوتا ہوں۔
امید ہے، افاقہ ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply