پتھر کے خدا

شہر خموشاں سے دو آوازیں بڑی نمایاں طور پر سنائی دے رہی ہیں ایک چیئرمین بھٹو کی درد بھری صدا اور دوسری نواب مظفر کی خاموش سسکیاں ۔ مقصد نواب مظفر کی توصیف بیان کرنا نہیں ،ہاں بھٹو کی اس افہام و تفہیم کی سیاست دور اندیش فیصلوں کا ماتم ضرور ہے جسکا کہ موجودہ پی پی قیادت نے بڑی دھوم دھام سے ” افہام و تفہیم ” ہی کے نام پر جنازہ نکالا ہے ۔ نسل پرست رحجانات کا ،فی الواقع شعور رکھنے والے بھٹو نے ایک پر امن اور مثالی جمہوری بندوبست کیلئے جو توازن سندھ کی پارلیمنٹ ، گورنر ہاوس اور شہری حکومت میں قائم کرنے کی کوشش کی تھی موجودہ پی پی قیادت نے اس پر شب خون نہیں مارا تو کم از کم اس شب خون کے لیئے اپنا کاندھا ضرور فراہم کیا ہے اور اس پر ستم ظریفی کہ آج بھٹوز کے متوالوں کے لبوں پر نعرہ سب سے نمایاں ہے وہ “کراچی فتح “کرنے کی نوید ہے ۔
جس چابکد ستی کے ساتھ کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کو پیروں تلے کچلا گیا ہے اور جس گرم جوشی کے ساتھ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے سروں پر تلوار لٹکا کر انھیں پی پی میں شمولیت کی ترغیب دی جارہی ہے اس نے ایک ایسا زہریلا منظر نامہ ترتیب دیا ہے جس سے پی پی کی قیادت قطعی طور پر غافل ہے ۔ وہ پر امید ہے کہ ریاستی طاقت کے ساتھ ایم کیوایم کے کئے گئے حصے بخروں کا تمام تر سیاسی اور انتخابی فائدہ صرف اسے پہنچے گا اور اس کے بر خلاف جو سوچ عوامی سطح پر کراچی میں پی پی قیادت کی متعصب سوچ اور طرز عمل سے ابھری ہے اس میں اس غیر سیاسی عمل اور گھناونے کھیل کے تمام ہی کردار پس پشت چلے گئے ہیں اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات ہر آنے والے دن پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ 22 اگست اور اس کے بعد ابھرنے والے تمام ہی مناظر میں ریاست اور ریاستی ادارے یا موجودہ حکومت معصوم اور بے قصور ہے اور اس تمام تر کھیل کا ماخذ پی پی قیادت کا ” زرخیز ” ذہن اور انکے ” بین الاقوامی مددگار” ہیں ۔ یہ ایک قطعی طور پر غیر معمولی تاثر ہے جو آنے والے دنوں میں یقینی طور پر پی پی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگا ۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں کراچی میں پی آئی بی ، پاک سرزمین پارٹی ، تحریک انصاف اور پی پی کاندھے سے کاندھا ملا کر لڑیں گے اور سیٹوں کی بندر بانٹ کر لی جائے گی ۔ محدود سطح پر کہیں کہیں الطاف حسین کے حمایت یافتہ آزاد امیدوارکھڑے ہونگے مگر نہ انکی اپروچ عوام تک ہوگی نہ عوام کی ان تک ،اور یوں ایک حقیقی نمائندہ جماعت کو اس کے رہنما سمیت ہمیشہ کیلئے زمین میں دفنا دیا جائے گا ۔
ممکن ہے اس قسم کا تجزیہ کرنے والے اسکرپٹ رائٹر سے کچھ شناسائی رکھتے ہوں یا پھر وہ پانی کے بہاو اور روانی کو دیکھ کر اپنے تجزیوں کی بنیاد قائم کر رہے ہوں یا پھر انکے مد نظر خودساختہ طور پرکسی بڑے چینل کاوہ پلیٹ فارم ہو جس پر انھیں ایک غیر اعلانیہ سیاسی اتحاد میں آصف زرداری ، طاہر القادری ، عمران خان اور مصطفیٰ کمال کے چہرے نمایاں نظر آ رہے ہوں مگر ایسا کوئی بھی تجزیہ کرنے سے پہلے نہ صرف چند معروضات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے بلکہ یہ جاننا بھی کہ کوئی اشتہار لیئے بنا کوئی بڑاچینل یہ کار خیر کس فنڈنگ کے تحت انجام دے رہا ہے ۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں مزید ریمانڈ کیلئے پیش کیا گیا تو جج نے آئی او سے استفسار کیا کہ ان پر جن دہشت گردوں کے علاج کا الزام ہے کیا وہ گرفتار نہیں ہوئے؟ آئی او نے ارشاد فرمایا نہیں وہ جیسے ہی ائیر پورٹ پر قدم رکھیں گے انھیں گرفتار کر لیا جائے گا جج نے سخت لہجے میں پوچھا پھر وہ کون ہے جو شہر میں پریس کانفرنسیں کر رہا ہے ( اشارہ انیس قائمخانی کی طرف تھا جس کا نام ان افراد میں شامل تھا جن کے علاج کے الزام میں ڈاکٹر عاصم گرفتار تھے ) آئی او نے کمال ڈھٹائی سے جواب دیا اس کا ہمیں پتہ نہیں ہم نے ایف آئی اے سے کہا ہے وہ لوگ جوں ہی ائیر پورٹ پر قدم رکھیں گے انھیں گرفتار کر کے پیش کر دیا جائے گا اور جج نے 90 دن کا مزید ریمانڈ دے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کہاں تھی ؟ کس کے ساتھ تھی ؟ کیا مصطفی کمال اور انیس قائمخانی واقعی پیرا شوٹ سے اترے تھے ؟
جو لوگ فاروق ستار کے پی اے آفتاب کو جانتے ہیں وہ بہ سہولت اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کے وہ ایک پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا نوجوان تھا اور کسی بھی نوعیت کے کرائم سے اسکا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا اسے گرفتار کیا گیا اور اگلے دن یہ کہہ کر اسکی نعش حوالے کی گئی کہ اسے دل کا دورہ پڑا تھا ۔انتقال کر گیا ہے۔ راقم الحروف نے اس وقت اپنے کالم میں آفتاب کی کئی تصویریں لگائی تھیں جن میں واضع طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ اسکے جسم پر بہیمانہ تشدد کے درجنوں نشانوں کے علاوہ ایک درجن مقامات پر اس کے جسم کو ڈرل کیا گیا تھا جس پر ہم نے لکھا تھا کہ “جس شریف آدمی کا جسم بارہ مقامات پر ڈرل سے چھیدا جائے گا اسے دل کا دورہ ہی پڑے گا “نیشنل میڈیا کی بے حسی کے جمود کو سوشل میڈیا نے توڑا تھا اور پھر بالآخر اس کیس پر جنرل(ر) راحیل نے براہ راست نوٹس لیا اور رینجرز کے متعلقہ اہلکاروں کو معطل کر کے تفتیش کا آغاز کیا گیا تھا ۔
نتیجہ تو خیر کیا ہی نکلنا تھا ایک”غدار وطن “کی سرکاری عقوبت خانہ میں ہلاکت کا نوٹس لے لیا جانا ہی اس شہر میں انسانیت کے نام پر ایک عظیم احسان تھا ۔ بعد ازاں جب ایم کیوایم کی مقامی قیادت فاروق ستار کی سربراہی میں احتجاجی اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر بیٹھی تو کسی میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے قائد کی تصویریں ہی لگا لیتا مگر روزانہ اس کیمپ سے کئی کئی بار اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے فاروق ستار اور دیگر کومذاکرات کے لیےساتھ لے جاتے اور کیک پیسٹریاں کھلا کر واپس بھیج دیتے۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جو اپنی رہائش گاہ پر اپنے تنظیمی عہدیداروں سے بھی خطاب کرنے کے مجاز نہیں تھے انہوں نے بیچ سڑک اپنے مقامی رہنماوں سے خطاب کیا ملکی حالات کی جو تصویر کشی انہوں نے کی وہ زمینی حقائق سے کچھ اس طرح جڑی تھی کہ جس سے انکار کی گنجائش نہیں اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کی بے رحمانہ ہلاکتوں پر وہ کچھ زیادہ تلخ ہو گئے اور حکومت کے بجائے ریاست اور کچھ ریاستی اہلکاروں کا نام لیکر انھیں برا بھلا کہا اس پر ان پر ہتک عزت کا دعوی ٰدائر کیا جا سکتا تھا اور پھر جب انھوں نے بات ختم کرنا چاہی تو کیمپ میں بیٹھے ایک مقامی رہنما نے مائیک پر کہا کہ اب تو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کا دل نہیں چاہتا جسے اس دن کی فوٹیج میں صاف سنا جا سکتا ہے جس کے جواب میں مردہ باد کا وہ متنازعہ نعرہ لگا جس نے 22 اگست کو الطاف حسین کو تو غدار بنا دیا مگر اس نعرے کی فرمائش کرنے والے آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے شاد و آباد ہیں ۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کہاں تھی ؟ کس کے ساتھ تھی ؟ احتجاجی کیمپ سے ایم کیوایم کے رہنماوں کو لیجا کر کیا طے کیا جا رہا تھا ؟
ان تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات کی عدم موجودگی میں مستقبل کی پیش بینی ایک دشوار گزار کام ہے کہا جا رہا ہے کہ آفاق اور فاروق ستار کی ایم کیوایم اور مصطفیٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی مل کر الیکشن لڑینگے کوئی پاک سر زمین سے پی پی کا انتخابی اتحاد بنوا رہا ہے تو کوئی پی آئی بی سے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ الطاف حسین اپنے آزاد امیدوار کھڑے کرئے گا مگر ہمارا ذاتی خیال اور پیش گوئی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا الطاف حسین یا تو بدستور خاموش احتجاج جاری رکھیں گے یا پھر عین الیکشن کے قریب جب پی آئی بی اور پاک سرزمین بھرپور انداز میں الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں آ چکے ہونگے تو ان میں سے کسی ایک کیمپ کو الطاف حسین کی حمایت حاصل ہو جائے گی اور یہ اس قدر شارٹ پیریڈ میں ہوگا جسکا توڑ کرنے کی تاب پس پردہ اداکاروں میں نہ رہے گی فی الوقت اس کے علاوہ کوئی اندازہ لگانا ہمارے لیئے ممکن نہیں ۔
ایک ماہ کی غیر حاضری میں ہم نے اپنے شہر کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ بھی لیا ہے اور بہت کچھ دیکھا ہے۔ کہیں ایسا لگا جیسے دوسری عالمگیر جنگ کیلئے نازی کیمپ کا مقابلہ کرنے کیلئے جبری بھرتیاں کی جا رہی ہیں تو کہیں عوامی مینڈیٹ کو جوتوں تلے کچل کر صوبائی حکومت اپنی جماعت کے جھنڈے بلڈوزروں پر لگائے شہر کی سڑکوں اور شہری حکومت کی بنیادوں کو کھودتی نظر آئی ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سیاسی اور جمہوری سربراہ کم اور انتظامی سربراہ بھرپور نظر آئے۔ یوں لگا وہ کسی عوامی جماعت کے نمائندہ نہ ہوں اور دل چاہا کہ انھیں وزیر اعلی ٰسندھ کے بجائے “وائسرائے سندھ “کہہ کر مخاطب کیا جائے مگر پھر سوچا اس خطاب پر گورنر سندھ معترض ہونگے کیونکہ وہ بھی اس کے دعویدار ہیں ۔بہر طور کراچی کی صورتحال دیکھ کر دل میں مرحوم جگجیت سنگھ کی ایک غزل آئی۔ اسی کے مکھڑے پر کالم کا عنوان رکھ دیا اسی کا پہلا شعر ملاحظہ فرمائیں اور اجازت دیں اب آ گئے ہیں تو ملاقات ہوتی رہے گی انشااللہ ۔
پتھر کے خدا ، پتھر کے صنم ، پتھر ہی کے انساں پائے ہیں
تم شہر محبت کہتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جان بچا کر آئے ہیں

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply