ماتر بھومی۔۔۔مرزاشہباز حسنین بیگ

خالق کائنات نے اس جہان رنگ و بو میں ہر جاندار کو جوڑے کی شکل میں تخلیق کیا۔تمام مخلوقات میں سے انسان  کو عقل و خرد سے نواز کر افضل ترین مخلوق کا درجہ دیا۔۔پھر جوڑے بنائےاور    دونوں  کے مابین رغبت کا مادہ ان کی سرشت میں شامل کر دیا۔کائنات کے حسین ترین رنگوں میں عورت کا وجود خوب صورت ترین اضافہ ہے۔جس پر انسان کو خالق کا ہر لمحہ شکر گزار ہونا چاہیے ۔مخلوق کی بقاء کا ضامن نر اور مادہ کا ملاپ ہے۔نسل انسانی مرد و عورت کے اختلاط سے وجود پا کر آج کائنات کی تسخیر میں مصروف ہے۔علا مہ اقبال نے فرمایا۔وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ۔

کائنات کی خوب صورتی عورت کے وجود کی مرہون منت ہے۔اس کے بغیر کائنات بے رنگ ہے۔رنگوں کے امتزاج سے مزین کائنات میں اور رنگ کے بغیر کائنات میں کس قدر فرق موجود ہے۔اس کا اندازہ آج کی نسل بلیک اینڈ وائٹ اور کلر ٹی وی کی نشریات سے بخوبی لگا سکتی ہے۔ایک وہ دور تھا کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان میچ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر نشر ہوتا تھا ۔تب ہم ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کی شناخت تیر تکے سے کرنے پر مجبور تھے۔ایسا سمجھ لیں آنکھ کی بینائی کے باوجود ہم آدھے اندھے تھے۔آج تو HD کلرز کی بدولت آنکھوں کی بینائی کو چار چاند لگ چکے ہیں ۔اس قدر تمہید باندھنے کی ضرورت ایک بالی وڈ کی بین شدہ فلم ماتر بھومی کو دیکھنے کے بعد محسوس ہوئی۔

اس فلم میں ڈائریکٹر نے ایک ایسی دنیا دکھائی جس میں عورت کا وجود ناپید ہے ۔اور پھر پردہ سکرین پر اس کے آفٹر شاکس کو انتہائی مہارت سے بیان کرنے کی کوشش کی ۔مگر چونکہ برصغیر میں اک ایسی فلم جو سماج کی برائیوں کو بے رحمی سے بے نقاب کرتی ہو ۔اس پر ہمیشہ سے سنسر بورڈ کے عقل بند پابندیاں لگانے پر کمر بستہ رہتے ہیں ۔خاص طور پر پاکستان میں تو سنسر بورڈ سماج کو شعور دینے کے مکمل طور پر خلاف ہے ۔بہرحال انڈیا میں پھر بھی  صورتحال  کچھ بہتر ہے۔ماتر بھومی انڈین سماج کی جہالت اور سفاکی کو آشکار کرتی ایک خوبصورت کاوش ہے۔

ویسے تو ازل سے ہی مرد عورت کے وجود کے ساتھ نفرت کا اظہار کرتے آئے ہیں ۔یہ رویہ مرد میں کہاں سے وارد ہوا یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ شاید اس کی وجہ غربت ہے۔اسلام کے ظہور سے قبل عرب معاشرے میں عورت کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔اسلام نے عورت کے مقام کی اہمیت واضح کی ۔بیٹی کی پیدائش کو باعث رحمت قرار دیا۔عورت کی عزت و وقار کو محفوظ کرنے کی تلقین بھی کی ۔مگر برصغیر میں آج بھی عورت امتیازی سلوک کا شکار ہے۔پاکستان اور انڈین سماج میں معمولی فرق کے ساتھ آج بھی عورت کے ساتھ جنس کی بنیاد پر اس کا استحصال کیا جا رہاہے ۔معذرت کے ساتھ برصغیر کےسماج میں عورت حد درجہ مظلومیت کا شکار رہی ۔ماتر بھومی میں اسی مظلومیت کو دکھایا گیا۔فلم کا آغاز ایک بچی کی پیدائش سے ہوتا ہے۔جیسے ہی مرد کو بتایا جاتا ہے لڑکی پیدا ہوئی وہ بچی کو دودھ میں ڈبو کر    مار ڈالتا ہے۔غربت کے شکار سماج میں یہ چلن چونکہ عام ہوتا ہے ۔اس کے نتیجے میں سماج میں مرد باقی رہ جاتے ہیں ۔عورت نایاب ہو جاتی ہے ۔

اس کے بعد کے حالات کی عکاسی ماتربھومی فلم میں بہت عمدگی سے کی گئی ہے۔فلم میں مرد اپنے فطری تقاضے اور جنسی ہیجان کے کارن مجبور ہو کر جانوروں تک کو نہیں چھوڑتے ۔عورت کے حصول کے لیے رقم ہاتھوں میں لیے دربدر مارے مارے پھرتے ہیں ۔پھر ایک منظر وہ بھی آتا ہے ۔کہ ایک لڑکی کی شادی لڑکی کا باپ رقم لے کر پانچ بھائیوں سے کر دیتا ہے۔سماج کا بھیانک روپ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔بلکہ ان پانچ لڑکوں کا باپ بھی اس لڑکی کو اپنے تصرف میں لاتاہے۔مرد جن کا سماج عورت کے وجود سے خالی ہوتا ہے ۔انسان سے جانور بن جاتے ہیں ۔اور عورت کو گائے بھینس جتنی اہمیت بھی نہیں دے سکتے ۔مرد کی تمام سفاکیت کی جزیات تک کو فلم کے ہر سین میں بے نقاب کیا گیا ہے۔

زیادہ حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ موجودہ دور میں بھی انڈین سماج میں ابھی تک ایسے علاقے موجود ہیں ۔جہاں آج بھی عورت کے ساتھ ظلم و جبر جاری ہے۔عورت کو آج بھی دروپدی اور ستی کیا جاتا ہے۔ستی کی رسم کے خلاف تو انڈیا میں قانون سازی ہو چکی ۔مگر عورت کے ساتھ اس گھناؤنے ظلم کی سب سے بڑی وجہ جہیز کی لعنت کی صورت میں آج بھی باقی ہے۔ماتر بھومی ضمیر کو جنجھوڑتی اور مرد کی سفاکیت کو بے نقاب کرتی ہوئی اک عمدہ کوشش ہے۔سماج کی تربیت کے لیے ایسی ہر کوشش پر پابندی لگانے سے اجتناب کرنا ہو گا۔سنسر بورڈ کے متعلق ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے ۔سنسر بورڈ چاہے انڈین ہو یا پاکستانی ہمیشہ سماج کو شعور دینے والی فلم پر ہی پابندی لگاتاہے۔حالانکہ سماج کی تربیت کے لیے فلم اور ڈرامہ ادب کی تمام اقسام کہانی، افسانہ، ناول اور شاعری سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کی نسل کتاب کے مطالعہ سے دور ہو چکی ہے ۔فلم اور ڈرامہ سماج کی تربیت میں زیادہ بہتر میڈیم بن چکا  ہے۔ایسی ہر فلم جو سماج کی بدصورتی کو ختم کرنے اور ذہن کے دریچوں کو کھولنے کا پیغام دے اس کو دیکھنے پر پابندی لگانے سے اجتناب کرنا وقت کی ضرورت ہے۔بالی وڈ میں بولڈ موضوعات پر قدغنیں اب بہت کم ہیں ۔مگر بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال بہت خراب ہے۔کیا پاکستان میں PK جیسی فلم بنائی جاسکتی ہے؟افسوس پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ۔شدت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی نے سوال اٹھانے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ویسے بھی تمام فنون لطیفہ پر خود ساختہ نظریات کی قینچی لگانے والا یہاں دادو تحسین کا مستحق ہے۔جبکہ سماج کو شعور اور تربیت دینے والا فتوی گردی کا شکار ۔ہمارے سماج کو شعور دینے کے لیے بولڈ موضوعات کو اب زیر بحث لانا ہوگا۔اچھے ادب کی اہمیت اور افادیت ہمارے ہاں بہت دیر سےآشکار ہوتی ہے۔
وجود زن سے خالی دنیا کے تصور کو سمجھنے کے لیے ماتر بھومی فلم ضرور دیکھیں ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply