انصاف آصفہ کے لیے۔۔۔ابنِ ظفر

یہ آٹھ سالہ آصفہ بانو ہے۔۔
جو محمد اختر صاحب کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔
اور محمد یوسف صاحب نے اُسے گود لے لیا تھا جب اُس کی عمر صرف دو سال تھی۔
محمد یوسف صاحب پیشہ سے بکروال ہیں۔
آصفہ بانو کا روز کا معمول تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو گھاس کھلانے اپنے گھر سے دور جنگل کی طرف جایا کرتی تھی۔
چار درندہ صفت انسان اس بچی کو اغوا کر کے لے گئے۔۔
اپنی بے حسی اور درندگی دکھاتے ہوئے گینگ ریپ کے بعد گلہ گھونٹ کر قتل کرکے لاش کی بھی بے حرمتی کی گئی اور گندگی کے ڈھیر پر پھینک دی۔۔۔وہ بھائی درد محسوس کریں جن کی بہنیں ان کی آنکھوں کے سامنے ہنس رہی ہیں اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔
وہ باپ جن کی ننھی پریاں ان کی  گردن سے جھول رہی ہیں۔۔اور اپنے پھولوں جیسے ہونٹوں  سے اپنے لئے کھلونے مانگ رہی ہیں
وہ مائیں جن کی بیٹیاں ان کی آغوش میں مسکرارہی ہیں۔
وہ گھر والے جو اپنی معصوم پریوں کی کمر پر بستہ باندھ کر بالوں کی چُٹیا بناکر جیب میں خرچہ ڈال کر رخساروں پر بوسے دیکر سکولوں کو روانہ کررہے ہیں۔
وہ سب اس آصفہ کو اپنی آصفہ سمجھیں۔۔اس دکھ کو محسوس کریں جو کلیجہ شکن ہے ،اس بچی کی چیخیں ،آہیں، سسکیاں  جو حلق میں ہی دفن کردی گئیں۔۔۔اس کا جواب کون دے گا ؟؟
وہ ماموں اس کا درد محسوس کریں جن کی چھوٹی چھوٹی بھانجیاں ہیں،وہ چاچے اس کا درد محسوس کریں جن کی چھوٹی چھوٹی بھتیجیاں ہیں،

آج آصفہ کا لا شہ رو رو کر بے حس انسانیت سے ،اقتدار کے نشے میں ڈوبے بھیڑیوں سے،عدالتوں میں بیٹھے منصفین سے،قانون کے رکھوالوں سے فریاد کررہاہے کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا۔۔۔؟؟
یہ  گناہ  فحاشی و عریانی کے علمبرداروں کے  سر   ہے  جو قوم کو روشن خیال،بے حیا،شہوت پرست درندوں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حیرت ہے ہم بحیثیت مجموعی اتنے سفاک کیوں ہوگئے ہیں۔۔آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا معاشرہ قائم بھی رہ سکتا ہے کیا ؟یقیناً  ان ظالموں  کا  کوئی  مذہب نہیں ہوتا،ہوس ان کا مذہب ہوتا ہے اور نفس ان کا خدا۔۔یہ شہوت مٹانے کے لیے  کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
ذرا یہ تو سوچیے کہ ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے؟کہ نا بالغ تک اس کام میں ملوث ہیں۔۔۔کچھ کہنے کی ہمت اور حوصلہ ہی نہیں!!

Facebook Comments

ابنِ ظفر
تعارف کا محتاج

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply