چھوٹا آدمی بڑا منصب، مگر کون؟ ۔۔۔ خواجہ حبیب

بھارت کے ساتھ مجوزہ و ممکنہ ملاقات میں ناکامی کے بعد وزیراعظم پاکستان نے غیر پارلیمانی و غیر سفارتی زبان پر مشتمل ایک غیر متوقع ٹوئیٹ کی، جس کی ٹرمپ کے علاوہ شاید ہی دنیا میں کوئی نظیر ہو- یہ ٹوئیٹ ہر جگہ گپ شپ اور بحث مباحثے کا موضوع بن گئی تھی- حکمران جماعت کے لوگوں نے ٹوئیٹ کا دفاع ویسے ہی کیا جیسے ہمیشہ کرتے آ ئے ہیں-

کاش بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان ایسا نہ کرتے بلکہ بھارت کو کرارا جواب اپنے وزیر فواد چوہدری کے زریعے دلواتے جو اس مقصد کیلیے اپنے لہجے کے علاوہ اس لئے بھی موضوع ترین ہوتے کیونکہ وہ وزیر اطلاعات بھی ہیں- مگر لگتا ہے کہ ان موصوف کو جنابِ وزیراعظم نے صرف اپوزیشن پر ہی کھلا چھوڑ رکھا ہے- 

یہ ٹوئیٹ بیان سفارتی زبان کے منافی بالکل عامیانہ انداز کا تھا جو کسی بھی وزیر اعظم کو قطعاً زیب نہیں دیتا-

 ڈی چوک پر دھرنے کے دوران مخالفین کی پینٹیں گیلی کرنے، کرکٹ گراؤنڈ میں مخالف کھلاڑیوں کو ریلو کٹا و پھٹیچر کہنے، مخالفین کو ڈیزل، شیدا ٹلی، چور، کرپٹ جیسے فقرے کسنے کی نسبت امور مملکت یقیناً بہت مختلف ہیں- کوئی تو ہونا چاہئے جو ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم کو بتا سکے کہ میاں آپ بڑے ہو گئے ہیں اور اب بڑوں جیسے رویے اپنائیں- 

دیکھا جائے تو خان صاحب کا “چھوٹا آدمی بڑا منصب” والا بیان خود ان پر بجا طور پر صادق آتا ہے- جو ڈائریکٹ پیراشوٹ وزیراعظم ہیں- جبکہ مودی کی بہرحال ایک بڑی سیاسی جدوجہد ہے- وہ وزارت عظمی پر لینڈ نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل وزیر اعلی بھی رہ چکا ہے۔ مسلم دشمنی بھلے اس کا فاشسٹ ایجنڈا تھا لیکن اس نے جزباتی عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنائی تھیں- وہ گراس روٹ سے ٹاپ موسٹ جانے کی ایک مثال ہے- چائے بیچنے والا محنتِ مشاقہ و جہدِ مسلسل کی بدولت وزارتِ عظمی کے اعلی ترین منصب تک پہنچا اور پھر اپنی ٹرم تقریبا مکمل بھی کر چکا ہے- آپ کے چھوٹا کہہ دینے سے مودی ہرگز چھوٹا نہیں ہو گا بلکہ اس منظر میں بونے کی طرح جو چھوٹا نظر آ رہا ہے، وہ ہرگز کوئی دوجا نہیں بلکہ آپ ہی کی ذات ہے- 

جیسے پارلیمان کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، جہاں کاروائی کے دوران  غیر پارلیمانی الفاظ حزف کر لئے جاتے ہیں، ایسے ہی قانون و صحافت کی بھی اپنی اپنی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے جس میں غیر متعلقہ الفاظ دیگر مناسب لفظوں سے بدل دئے جاتے ہیں- بعینہ ایک سفارتی زبان بھی ہوتی ہے جسے دیگر ممالک کے سفارتکاروں یا حکمرانوں کے ساتھ انگیج کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے- 

سفارتکاری ناممکنات کو ممکن بنانے کا فن ہے- دنیائے سفارت میں ممالک کے مابین دوستیاں و دشمنیاں ہمیشہ بنتی بگڑتی رہتی ہیں- اس لئے سفارتکاری میں جہاں مناسب وقت اور صحیح فورم کا چناؤ کیا جاتا ہے، وہیں الفاظ اور لہجوں پر بھی بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے- سفارتی زبان یوں شائستہ، نرم اور لچکدار ہوتی ہے کہ مشکل و بدترین حالات اور جنگ کی حالت میں بھی دشمنوں سے سفارتی رابطے کے وقت نرمی اور شائستگی کا استعمال ترک نہیں کیا جاتا- 

 بطور وزیراعظم قوم و دنیا آپ سے توقع کرتی ہے کہ تقاضائے منصب کی بجا آوری میں آداب و قرینے بھی ملحوظ خاطر رکھیں گے- یاد رہے اپنے رویوں کی وجہ سے ٹرمپ سابق امریکی صدور کے برعکس دنیا کے دیگر حکمرانوں سے الگ تھلگ ہے اور عالمی برادری میں اس کا کوئی دوست نہیں ہے- امریکہ کے سب روایتی دوست ممالک بھی اسکی زبان اور ہٹ دھرمی سے نالاں ہیں- 

 بادشاہت ہو یا وزارتِ عظمیٰ، حکمرانوں کی دنیا کے بھی کچھ آداب اور قرینے ہوتے ہیں جو نئے حاکم کو بخوبی ازبر کرائے جاتے ہیں- 

امریکہ میں الیکشن جیتنے کے بعد کچھ عرصہ کے دوران نیا صدر پارلیمانی و سفارتی زبان اور قرینے و آداب کی سوجھ بوجھ حاصل کرتا ہے مگر مخصوص میلانِ طبع کی بدولت موجودہ امریکی صدر اپنے منصب کے شایان شان روایتی قرینے و آداب نہیں اپنا سکا- سفارتی قرینے و آداب ٹرمپ کی طرح خان صاحب کے مزاج کا بھی حصہ نہیں-

Advertisements
julia rana solicitors

 بدقسمتی سے ہمارے وزیراعظم سے موازنہ کرنے کیلیے ٹرمپ کے علاوہ لوگوں کو موجودہ دنیا کا کوئی حکمران نہیں ملتا- ان کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر برطانوی ٹی وی کے ایک معروف اینکر ٹریور نوح (Trevor Noaha) نے اپنے مداحین کو ایک مزاحیہ خاکہ پیش کیا تھا جس میں بہترین ٹیم ورک اور انتہائی محنت سے خان صاحب کا ٹرمپ کے ساتھ موازنہ کیا گیا تھا- ٹرمپ کے ساتھ خان صاحب کی حیران کن حد تک مماثلت پر سے پردہ اٹھانے پر نوحا کے برطانوی اور عالمی شائقین خوب محظوظ ہوئے تھے- نوحا نے اس پروگرام میں عمران خان کو براؤن ٹرمپ قرار دیا تھا- خان صاحب کو ٹرمپ کے سائے سے نکل کر دنیا کو دکھانا ہو گا کہ آپ براؤن ٹرمپ نہیں بلکہ عمران خان ہیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply