اعمال کا بدلہ

دربان نے شیشے کا دروازہ ادب سے کھولا,تو اندر آتے ہلکے سے فربہ وجُود و درمیانہ قدو قامت کے مالک ، مُلک کی مشہور و معرُوف سیاسی شخصیت او ر ماضی کے اداکار کو دیکھ کر میں چونک سا گیا، کالے سُوٹ میں ملبُوس یہ صاحب نصف صدی پار کرچُکے تھے،اور شاید باقی لوگوں کی طرح بقایا نصف صدی کو پار کرنے کے خواہش مند تھے۔میرے چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ ویسے تو عام لوگ آتے ہی رہتے تھے مگر جب بھی کسی خاص شخصیت کا آنا ہوتا تو ہمیں پہلے سے اطلاع کردی جاتی ،اور یہ بغیر اطلاع و بُکنگ کے آئے تھے۔ جلدی سے خُود کو سنبھالتے ہوئے میں اُن کی طرف بڑھا۔
گُڈ ایوننگ سر، ویلکم! ہمیں اطلاع دی ہوتی۔۔ ۔ آپ کو پک کرنے کا بندوبست کردیا جاتا۔میں ایک فورسٹار ہوٹل میں نائٹ مینیجر تھا۔ اس طرح کی پیشہ ورانہ و دوستانہ گپ شپ ہمارا کام اور ٹریننگ تھی۔
ایوننگ، تھینکس! مگر اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ سب انتظام ہوچُکا تھا۔ بس کسی وجہ سے وہ جگہ چھوڑنی پڑی جہاں کی بُکنگ ہوئی تھی۔اُن کا اسسٹنٹ اتفاقاًٍ میرا جاننے والا تھا جس نے مُجھے بتایا کہ جس فائیو سٹار ہوٹل میں ان کی بُکنگ تھی وہاں ان کے سیاسی حریف پہلے سے ٹہرے ہوئے تھے اور الیکشن کا زمانہ بھی تھا وہ کوئی سکینڈل افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ سکینڈل سے زیادہ شاید پارٹی چیف کی ناراضگی افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔ایک رات کے لیئے جگہ تو ہوگی ناں۔۔۔؟ جی جی بالکُل۔۔آپ یہاں لاونچ میں تشریف رکھیں ابھی آپ کے لیئے اچھا سا کمرہ تیار کرواتا ہوں۔۔ اشرف ان کو ٹی کافی وغیرہ پیش کرو،میں ویٹر کو ہدایت دیتے ہوئےفرنٹ ڈیسک کی طرف بڑھا۔ وہاں موجود عملہ بھی کُچھ ہڑبڑایا ہوا سا نظر آ رہا تھا۔میری ہدایات اور باتوں سے وہ کُچھ بہتر ہوئے اور اپنے اپنے کام پر لگ گئے۔ ان کے اسسٹنٹ سے یہ بھی معلُوم ہوا کہ وہ ایک روزہ کاروباری دورے پر آئے ہیں ۔ جس میں شاید پارٹی چیف سے ملاقات بھی ہو اور شاید کوئی بریکنگ نیوز بھی بن جائے۔بریکنگ نیوز کا سُن کر میرے کان کھڑے ہوگئے، لاکھ کُریدنے پر بھی اس سے آگے وہ ایک لفظ نہ بولا۔
پارٹی چیف کیا تھا ، بس ایک نمونہ ہی تھا ۔وہی روایتی طور پر باپ کی دی ہوئی پوزیشن پر قبضہ کرکے براجمان ہونے والا۔ہمارے اس مہمان کی ویسے تو شہرت اتنی بُری نہیں تھی جانے کس مجبُوری کے تحت انہیں دو سال قبل اچانک ہی سیاست میں آنا پڑا اور وہ بھی مُلک کی ایک بدنام اور کرپٹ جماعت کا نمائندہ بن کر،شاید کسی کاروباری مجبُوری کے تحت یہ اُن کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر اُن سے ملے ہوں۔کُچھ ہی دیر میں ان کے آرام کا بندوبست ہوگیا اور وہ اپنے کمرے چلے گئے۔ صُبح کے چار بجے کا وقت تھا ،نہ کسی کے آنے کی اُمید تھی اور نہ جانے کی توقع۔ میں اپنے کمرے میں موجود سیٹ سے ٹیک لگاکر آنکھ بند کیئے ہوئے تھا کہ باہر سٹاف کی حرکت سے میری آنکھ کُھلی ۔ میں صُورت حال جاننے کے لیئےجلدی سے باہر آیا۔ باہر آیا تو میں بھی کُچھ پریشان سا ہوا۔ اُوپر سے کسی کے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں اور اس کے ساتھ ہی فرنٹ ڈیسک پر موجود فون کی گھنٹی بجی۔
یااللہ خیر۔۔بے ساختہ میرے مُنہ سے نکلا۔۔۔۔۔۔سر جی کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ جلدی سے گاڑی وغیرہ نکلوائیں۔
فون پر ہمارے مہمان کا اسسٹنٹ تھا۔ چونکہ وطن عزیز میں سرکاری ایمرجنسی سروس نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیئے بجائے ایمبولینس کے اُنہوں نے مُجھے گاڑی نکلوانے کا کہا۔سیٹھ جی کو جلدی سے شہر کے بڑے ہسپتال پہنچایا گیا اور بڑی مُشکلوں سے اُن کی جان بچائی گئی۔میں صبح چھٹی کر کےگھر پہنچا اور سوچنے لگا کہ کیا یہی وہ بریکنگ نیوز بننی تھی۔۔۔۔۔ خیر!آرام وغیرہ کے بعد جب شام کو ہوٹل پہنچا تو اصل کہانی کا پتا چلا۔سیٹھ جی کو دل کا دورہ نہیں پڑا تھا بلکہ اُنہیں زہر خورانی کے ذریعے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ شاید اُن کے کُچھ اچھے اعمال کی وجہ سے اُن کے دُشمنوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاتھا۔طبعیت بحال ہونے پر انہوں نے پریس کانفرنس بلائی اور استعفیٰ دے کر پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ۔
کُچھ عرصہ بعد جب اُن کے اسسٹنٹ سے میری مُلاقات ایک نجی محفل میں ہوئی تو اُس نے بتایا کہ اُس رات دراصل وہ اس لیئے اچانک آئے تھے کہ سیٹھ جی کی پارٹی نے ہی اُن کے دوسرے ہوٹل میں پہنچنے سے پہلے ، وہاں مُخالف پارٹی کے بندے کو بٹھایا دیا تھااس لیئے سیٹھ جی وہاں ڈنر کرکے مجبوراً وہاں سے نکل آئے تھے۔ کیونکہ ان کی پارٹی کو بھنک پڑ چُکی تھی کہ وہ پارٹی چھوڑنے والے ہیں، اور ان کی پارٹی اس بدنامی سے پہلے ہی ان کا صفایا کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر سیٹھ جی اپنا ہر قسم کا نُقصان اُٹھانے کو تیار ہوکر اور کشتیوں کو آگ لگا کر نکلے تھے۔ شاید اسی لیئے اللہ نے ان کا ساتھ دیا اور انہیں زیادہ تکلیف نہ اُٹھانی پڑی۔
یہ ساری روداد بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آدمی جب حرام کمائے مگر دل سے اُس کام میں خوش نہ ہو یا کسی بھی بُرے عمل کی عادت میں مُبتلا ہواور اپنے رب سے دُعا گو ہو کہ اُسے اس کام سے نجات دلائے ۔ ہر وقت دل ہی دل میں پچھتاتا رہے، نہ کہ اُس مال سے لُطف اندوز ہوتا رہے تو اللہ غفور و رحیم اپنے بندوں کی آواز سُنتا ہےاو ر مشکلوں سے نجات دلاتا ہے۔ اللہ ہم سب کو حلال رزق عطا فرمائے!آمین۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply