افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
لیکن ریاست اور سیاست کے حکمرانوں کی اس تاریخی نااہلی، بدعنوانی، معاشی کمزوری اور کردار کی گراوٹ کا خمیازہ بھی یہاں کے غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ان کے قرضوں کے بوجھ محنت کشوں کو اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح ان کی سیاسی، سفارتی اور اسٹریٹجک پالیسیوں سے سماج میں کہیں یاس و ناامیدی بڑھتی ہے تو کہیں انتشار اور منافرتوں کے زہر پھیلتے ہیں۔ ان کے نظام کے اقتصادی بحران سے غربت اور محرومی کے ساتھ ساتھ ثقافت اور تہذیب کی تنزلی بھی جنم لیتی ہے۔ اس نظام کی پیدا کردہ قلت سے پھیلنے والی منافرتیں کبھی قومی، کبھی لسانی، کبھی مذہبی اور کبھی فرقہ وارانہ تعصبات اور حقارت میں بدلتی ہیں۔ اس خلفشار اور خونریزی کا شکار بھی عام انسان ہی ہوتے ہیں۔ اس فرقہ وارانہ قتل و غارت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو جہاں یہ کئی دہائیوں تک اپنائی جانے والی سامراجی و ریاستی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے وہاں اس کی سماجی جڑیں کہیں محرومی اور کہیں درمیانے طبقے کی نفسیاتی پراگندگی میں ملتی ہیں۔ جب ایک آسودہ زندگی اور بہتر مستقبل کی امید کسی معاشرے میں ختم ہونے لگتی ہے تو خصوصاً درمیانے طبقات اور پسماندہ سماجی پرتیں مختلف نوعیت کی انتہا پسندی اور تعصبات کی راہوں پر چل نکلتی ہیں۔ ایسے میں جب انقلابی تحریکیں نہ ابھر رہی ہوں، ان عذابوں سے نجات کا کوئی راستہ واضح نہ ہو رہا ہو تو سماج وحشت کی لپیٹ میں آنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً پنپنے والے رجعت، قدامت پرستی اور مذہبی جنون کے رجحانات کو حکمران طبقات کے مختلف دھڑے اپنے ہر طرح کے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری عناصر اپنی طاقت اور دولت کی برتری کے لئے انکی سرپرستی کرتے ہیں۔ ورغلاتے بھی ہیں اور مزید نفرتیں ایک بتدریج منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے ذریعے پھیلانے بھی رہتے ہیں۔ سامراجی قوتیں بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے ایسے رجحانات کو ہوا دیتی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج کی پوری تاریخ اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھانے پر مبنی رہی ہے۔ لیکن جب کوئی نظام معاشرے کو استحکام اور ترقی نہ دے پا رہا ہو تو حکمران اور محنت کش طبقات کے درمیان تضادات بھی شدید ہونے لگتے ہیں جو ایک تصادم کی جانب بھی بڑھتے ہیں۔ کیونکہ حکمران طبقات اپنے نظام کے بحران کی ساری قیمت محنت کش طبقات سے وصول کرتے ہیں۔ ایسے میں انقلابی جذبات اور تحریکوں کو زائل کرنے کے لئے بھی حکمران طبقات قومی، لسانی اور مذہبی نفرتوں کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ محکوموں کو تقسیم در تقسیم رکھا جائے۔
اس ملک کی دو تہائی سے زائد معیشت کالے دھن پر مبنی ہے ۔جہاں یہ دیوہیکل کالی معیشت یہاں کی سرمایہ داری کی تاریخی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں دہشت گردی کی قوت محرکہ کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ لیکن حاکمیت جب تک سرمائے کی رہے گی یہ وحشت ور درندگی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی۔ ہزارہ کمیونٹی نے تمام پارٹیوں اور حاکمیتوں سے فریادیں کر کے دیکھ لیا ہے کہ لیکن اس نظام کا کوئی ادارہ، کوئی پارٹی اور کوئی لیڈر ان کا نجات دہندہ نہیں بن سکا۔ بلکہ بہت سوں کے تانے بانے تو قاتلوں سے ہی جا ملتے ہیں ۔ مظلوموں کا ساتھ صرف مظلوم ہی دے سکتے ہیں۔ محکوم ہی محکوم کا سہارا بن سکتے ہیں۔ اس ملک کے محنت کشوں اور مختلف تعصبات کے مارے مظلوموں نے کئی مرتبہ یکجا ہو کر اس حاکمیت اور نظام کو چیلنج بھی کیا ہے۔ ہزار ہ کمیونٹی کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو ظلم و استحصال کے خلاف اٹھنے والی ایسی ہی تحریکوں کیساتھ جڑت اور یکجہتی بنانے اور مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی بغاوتیں آگے بڑھ کر کامیاب ہوں گی تو اِس نظام کے خاتمے کیساتھ ایک پرامن اور آسودہ معاشرہ قائم ہو گا۔
بشکریہ طبقاتی جدوجہد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں