چیری بلاسم/محمود اصغر چوہدری

”محبت ؟ نہیں نہیں ہم محبت نہیں کر سکتے ۔ ہم اس معاشرے کی روایات کے امین ہیں جہاں رسم و رواج ، قاعدے قانون اور اصول و ضوابط کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں ۔ جہاں دلوں پر دماغ کا پہرہ ہوتا ہے ۔جذبات پر عقل کی دیواریں کھڑی ہوتی ہیں ۔جہاں محبت کو بے حیائی سمجھا جاتا ہے ۔تم چاہو تو مجھے سنگدل کہہ لویا پتھردل یا بے حس لیکن سچ یہ ہے کہ ہم وہ ربورٹ ہیں جن میں برادری، قوم ، مذہب اور حیثیت کے پروگرام سیٹ کئے گئے ہیں ۔ ہم ان زنجیروں کو توڑنے کی جرات نہیں رکھتے ”

میری باتیں سن کر تم نے زور دار قہقہہ لگایا تھا ۔”تم محبت سے بھاگ رہے ہو ۔محبت توموت کی طرح پیچھا کرتی ہے۔ یہ ایسی کمان ہے جس کاتیرکبھی خطا نہیں ہوتا۔ یہ وہ ہواہے جو آشیانہ دل کے تہہ خانوں میں جانے سے بھی نہیں روکا جا سکتا ۔ یہ وہ وائرس ہے جس کا کوئی اینٹی باڈی یاماسک دریافت نہیں ہوا۔ یہ نہ حیثیت دیکھتی ہے ، نہ رتبہ ، نہ مذہب اور نہ ہی کوئی تفریق ۔ اس سے بچنے کی کوئی ڈھال نہیں ہے ”

سچ کہوں تو تم سے ملنے سے پہلے محبت میرے لیے محض ایک خیالی تصور تھی—کسی شاعر کے تخیل کی پرواز ، کسی ادیب کے قلم کی جادو گری ، کسی افسانے کادلکش پلاٹ، کسی گلوکار کے گانے کا مدھر بول، کسی موسیقار کی روح کو چھو لینے والی دھن یا پھر کسی دیوانے کی خوابوں کی ایسی دنیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ایک ایسا احساس، جس کا مزہ کسی نے چکھا نہ ہو، جس کی خوشبو سے کوئی آشنا نہ ہوا ہو، جس کی موسیقی نے کبھی کسی دل کو نہ چھوا ہو ۔ ایک ایسی بارش، جس کی بوندوں میں کبھی کوئی بھیگا نہ ہو۔ ایسی دیو مالائی پگڈنڈی، جس پر کسی نے قدم نہ رکھا ہو ۔ ایک ایسی پہیلی، جو آج تک حل نہ ہوئی ہو ۔ نندیا پور کا وہ خوابیدہ نگر جہاں حقیقت کی دنیا سے کوئی پہنچا نہ ہو ۔صحرا میں بھٹکتے پیاسے کی آنکھوں کا وہ سراب، جو ہمیشہ فریب ہی رہا ہو۔

پھر تم آئیں ۔ہوا کی سرگوشی کی طرح جو درخت کے ہر ایک پتے کو چھو کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ سورج کی اس کرن کی طرح جوہر صبح زمین کو سلام اور شام کو الوداع کہنا نہیں بھولتی ۔ ساگر کی اس موج کی مانند، جوباربار ساحل سے لپٹ کر اپنے وجود کا یقین دلاتی ہے ۔

تم سے ملنے سے پہلے میں سمجھتا تھا چاہا جانا صرف عورت کا حق ہے ۔حسن کامرکز و محور بھی وہی ہےاور محبت کی مورت بھی وہی ہے جس کی آرتی اتاری جانی چاہئے ۔مگر تم سے ملکر پہلی باریہ حقیقت آشکار ہوئی کہ عورت کوئی مورتی نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی ہستی ہے ۔ جس کے دل میں بھی جذبات ، احساسات ، اور محبت کا مدوجزر موجزن ہوتا ہے ۔جس کے اظہار کا اسے بھی فن آتا ہے

میں سمجھتا تھا کہ محبت میں مرد ہی دیوانگی کی حدوں کو پھلانگتا ہے ۔ لیکن تم نے مجھے بتایا کہ محبت یک طرفہ نہیں ہوتی اور جو عورت یہ چاہتی ہے کہ محبت میں صرف اسی کی ارچنا کی جائے وہ محبت کا مفہوم نہیں سمجھتی ۔ جو صرف پانے کی آرزو رکھتی ہے وہ بے جان مجسمہ ہے ، وہ دیوی کہلا نے کی مستحق نہیں ۔محبت تو احساسات بانٹنے کا نام ہے ، سچی دیوی وہی ہے جو اپنی تپسیا سے اپنے ہمسفر کو دیوتا کے مقام پر رکھنا جانتی ہو

تم نے مجھے چاہت کے ایسے احساس سے آشنا کرایا، جس کا ادراک مجھے پہلے نہیں تھا ۔مجھے پتہ چلا کہ محبت میں دل کی دھڑکنیں الجھ جاتی ہیں، وقت کی روانی مدھم پڑ جاتی ہے۔ چلتے چلتے کچھ لمحے ایسے بھی آتی ہیں جب محسوس ہوتا ہے کہ کشش ثقل ختم ہو گئی ہے ، کیونکہ پھر قدم زمین پر ہی نہیں ٹکتے ۔ تم نے مجھے ان راتوں سے متعارف کرایا جب نیند آنکھوں سے روٹھ جاتی ہے۔جب دل بے خودی بے چینی، بے قراری، اضطراب کے مفہوم سے آشنا ہوتے ہیں ۔

تمہیں تتلیوں ، پھولوں ، رنگوں اور تصویروں سے عشق تھا ۔ ہسپانوی موسیقی سے لگاؤ تھا ۔تمہیں کتابوں سے محبت تھی اور تم نے ہاتھوں کی لکیریں پڑھنے کا فن بھی سیکھ رکھا تھا ۔ کاش اس دن تمہاری ضدکے آگے ہار کر میں نے تمہیں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کا پرنٹ نہ بھیجا ہوتا ،انہیں دیکھ کر تمہاری مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی تمہاری آوازمیں اداسی اتر آئی تھی ۔

تم نے ایک عجیب سی پیش گوئی کی تھی ” ہاں واقعی تمہارا نام کبھی میرے نام کے ساتھ جڑ نہیں سکے گا اور پھر ایک خط میں لکھا تھا ۔” تم ایک دن بچھڑ جاؤگے جیسے پھول سے خوشبو ، جیسے تصویر سے رنگ، جیسے جسم سےجاں ، جیسے دل سے دھڑکن ، جیسے خواب سے تعبیر ، جیسے نظر سے منظر ،جیسے شام ڈھلتے ہی سورج کا اجالازمین سےجدا ہو جاتا ہے ۔۔ مگر میری بھی ضد ہے کہ میں تقدیر کو شکست دوں گی ۔ جتنا وقت مجھے میسر ہے اس میں تمہیں یقین دلادوں گی کہ محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ میں تمہاری دل کی ایسی کسک بن جاؤں گی کہ ہزاروں نگاہوں کے جھرمٹ سے لیکر میلوں جھمیلوں تک اور خاموش تنہائیوں تک تمہاری ہر یاد میں میری خوشبو بسی ہوگی ۔ ”

اور تم نے واقعی یہ ثابت کیا کہ تم ساون کی وہ جھڑی تھی ، جو دکھ اور تنہائی کے صحرا میں یوں برستی ہے کہ ریگزاروں کو جل تھل کر دیتی ہے ۔ تم وہ کرن تھی جو اماوس کی گھپ اندھیری رات میں سپیدہ سحرکی طرح نمودار ہوتی ہے ۔ تمہاری چاہت کی حدت کسی انجان جزیرے میں کسی برفانی رات میں جلتے ہوئے الاؤ کی مانندتھی ، جس کے قریب بیٹھ کر کسی گم گشتہ مسافر کی کپکپاہٹ کو سکون آ جائے، اور اس الاؤکے شعلے اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک بن کر رقص کرنے لگ پڑیں ۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ تقدیر سے کوئی لڑ نہیں سکتا اور نہ ہی ہاتھوں کی لکیریں بدلی جا سکتی ہیں ۔ کاش مجھے پتہ ہوتا کہ ہمارے پاس وقت اتناکم ہے تو میں ان اصولوں ، ان تقسیموں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ۔ اور اپنا سارا وقت محبت کو دیتا۔اب عالم یہ ہے کہ میری آنکھیں مسلسل نم رہتی ہیں ۔ڈاکٹرنے بڑے غور سے معائنہ کیا ہے ۔ گرد، الرجی اور انفیکشن کے کئی ٹیسٹ کئے ہیں مگر بے سود ۔ کندھے اچکا کر کہنے لگی ” نظر تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اس نمی کاکوئی علاج نہیں ہے ۔نہ کوئی دوا ، نہ دارو ، نہ کوئی آپریشن بس چند مشورے دے سکتی ہوں آئی ڈراپس استعمال کرو، پانی کے چھینٹے مارواور گرد سے بچو”

ڈاکٹر کو کیا معلوم یہ سب تمہاری شرارت ہے ۔ تم نے بچھڑنے سے پہلے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم میرے دل سے ایسے نکل جاؤ گی جیسے کمان سے تیر ، جیسے زبان سےکلام مگر تم تو دل کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی جا ٹھہری ہو ۔ تم نے کہا تھا کہ تم مجھے میری آخری سانس تک چاہو گی مگر تمہاری زیادتی یہ ہے کہ تم نے مجھے۔۔ بس۔ اپنی ۔۔آخری سانس ۔تک چاہا ۔ تمہیں دل جیتنا تو آگیا لیکن سچ یہ ہے کہ دل سے نکلنے کا سلیقہ نہ آیا۔ ایک غلطی اور کی ۔تم نے میری مسکراہٹ کو چیری بلاسم سے تشبیہ دی تھی ۔یہ تمثیل بہت غلط تھی شاید تمہیں اندازہ نہیں تھا کہ چیری کے پھولوں کی تو عمر ہی بہت مختصر ہوتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش کوئی ایسا سینٹ ویلنٹائین بھی ہوتا ہے جوصرف ایک بار ہی سہی ان سے بھی ملا سکتا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں ۔تو ہم ان کومحبت سے متعارف کرانے کا شکریہ ادا کر سکتے ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply