قومی مستقبل کا سوال ہے بابا۔۔۔نذر حافی

کوئٹہ میں ایک گھنٹے کے اندر 3 خودکش حملوں کے نتیجے میں 5 پولیس اہلکار شہید اور 7 زخمی ہوگئے ہیں، جرم کس کا ہے؟ مجرم کون ہے؟ حالات کس نے خراب کئے؟ مسلمانوں کے درمیان عدم اعتماد اور خون خرابے کی فضا کیوں بنی!؟ یقین جانیے قاتلوں کا تعلق حتماً افغانستان و پاکستان سے ہی ہوگا، جلد ہی میڈیا بتا دے گا کہ فلاں ٹولے نے ذمہ داری قبول کر لی ہے، سوچنے کی بات ہے یا نہیں کہ دو ہمسایہ اسلامی ممالک کے درمیان بغض و عناد کیوں ہے!؟ اگر چین کے لئے ہمارے دل میں محبت کا دریا موجزن ہے تو پھر افغانیوں کے لئے ہمارا اور ہمارے لئے افغانیوں کا دل اتنا سخت دل کیوں ہے؟ اس اندھی دشمنی کی داستان کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے؟ کیا پاکستان و افغانستان اپنی آئندہ نسلوں کو یہی دشمنی وراثت میں دینا چاہتے ہیں؟ کیا پاکستان و افغانستان ایک دوسرے سے دشمنی رکھ کر ترقی کر سکتے ہیں؟ وہ کونسی قوتیں ہیں جو ان دونوں ممالک کو قریب نہیں آنے دیتیں؟ کیا دوسروں کے مفاد کی خاطر اپنے ملک و قوم کو دشمنی کی آگ میں جھونکنا عقلمندی ہے۔؟ اگر افغانستان و پاکستان متحد ہو جائیں تو پھر خطے میں کیا مثبت تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں!؟ کون ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتا!؟ کون ہمیں قریب نہیں ہونے دیتا اور کس کے ہاتھ میں ہماری ڈوریاں ہیں!؟ یہ سب کچھ سوچنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔

جغرافیائی طور پر پاکستان و افغانستان دو برادر اور ہمسایہ اسلامی ملک ہیں۔ دونوں کے عوام دین دوستی، ایثار، مہمان نوازی، سخاوت اور دلیری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ بنیادی طور پر دونوں ممالک کے درمیان ایک ہی تنازعہ ہے، جسے ڈیورنڈ لائن تنازعہ کہا جاتا ہے۔ یہ ڈیورنڈ لائن قیامِ پاکستان سے پہلے بھی موجود تھی اور اس کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ نومبر 1893ء میں ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ نے روس کی جارحیت سے بچنے کے لئے افغانستان کے والی امیر عبدالرحمن خان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کی رو سے اگلے سو سال تک کے لئے ڈیورنڈ لائن کا تعین کیا گیا اور اس لائن کے مطابق اس وقت واخان کافرستان کے بعض حصوں جیسے نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ نیز  وزیرستان کا بھی کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا جبکہ افغانستان  نے استانیہ، چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل، کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال سے 100 سال تک کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔ یہ لائن ستمبر 1893ء میں قائم ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا، پاکستان بننے کے بعد بھی دونوں ممالک نے اس بارڈر کو باقی رکھا اور پاکستان ان مناطق کے عوض افغانستان کو مالی معاوضہ دیتا رہا۔ بعد ازاں افغانستان حکومت نے اس معاہدے کی تمدید سے انکار کیا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ اس مسئلے کو حسبِ سابق باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جاتا، لیکن ہمارے حکمرانوں نے دیگر غلطیوں کے ہمراہ ایک یہ غلطی بھی کی کہ اس مسئلے کو دوطرفہ محبت و اخوت کے ساتھ حل کرنے کے بجائے مستقل جنگی محاذ میں بدل دیا۔

ڈیورنڈ لائن پر حالات بگڑے تو ہندوستان، افغانستان کے قریب آگیا، ہم نے پھر بھی حالات کی نزاکت کو سمجھنے کے بجائے اپنی پالیسیوں میں افغانستان کو کوئی اہمیت نہیں دی اور  سعودی عرب سے تعلقات بنانے اور ریال بٹورنے کے چکر میں افغانستان میں جہاد انڈسٹری کھول کر بیٹھ گئے۔ اس جہاد انڈسٹری کے ذریعے ہم نے افغان جوانوں کی ایک دہشت گرد نسل تیار کی، جس کے جراثیم آج بھی افغانستان و پاکستان دونوں ممالک میں بکثرت موجود ہیں۔ ہماری سعودی عرب سے دوستی کے نتیجے میں افغانیوں کی بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں، قبائل کے قبائل موت کے گھاٹ اتر گئے، بلند و بالا عمارتیں خاک میں مل گئیں، افغانیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی اور ہم ان سارے نیک کاموں میں سعودی عرب کے ساتھ برابر کے شریک رہے۔ آخر میں اس ساری جنگ و جدال کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے اپنی فتح کا جشن منایا اور سعودی عرب نے اپنے لبرل ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا، لیکن ہم وہیں کے وہیں  افغانستان کے ساتھ سینگ پھنسائے بیٹھے رہ گئے۔ آج نسلِ نو اپنے اکابرین سے پوچھتی ہے کہ جتنی توانائیاں ہم نے افغانستان کو منشیات اور اسلحے کا گڑھ بنانے پر صرف کی ہیں، اگر اتنی توانائیاں ہم ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو حل کرنے پر لگاتے تو کیا یہ مسئلہ حل نہ ہو جاتا؟

Advertisements
julia rana solicitors

جتنی قربانیاں ہم نے سعودی عرب کو خوش کرنے کے لئے دی ہیں، اگر اتنی افغانیوں کے لئے دیتے تو کیا ہمارے باہمی سرحدی تنازعے حل نہ ہو جاتے! اور فوج کے جتنے جوان ہم نے سعودی عرب کے جہادیوں کے ہاتھوں شہید کروائے ہیں، اگر اتنے جوانوں کو ہم بچا کر رکھتے تو ان کی توانائیوں سے مسئلہ کشمیر پر کتنی پیشرفت ہوسکتی تھی! ہمارے تھنک ٹینکس نے جتنا زور سعودی ریالوں کے سائے میں افغانستان کو عقب ماندہ اور پسماندہ رکھنے پر لگایا ہے، اگر اتنا زور کشمیر کو آزاد کروانے پر لگاتے تو بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہوتی! ابھی بھی وقت ہے اور سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، آج افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر جہاد اور دہشت گردی کی بارودی سرنگیں بچھانے والا سعودی عرب خود لبرل ہوگیا ہے، آج ہمیں ڈالروں سے نوازنے والا امریکہ اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر کھڑا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک مرتبہ آنکھیں کھول کر حالات کا ہر طرف سے جائزہ لیں اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ عدم اتحاد کی فضا کو ختم کریں، ہمیں افغانستان کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کے استحکام، ترقی، بقائے باہمی اور سائنسی و علمی پیشرفت کے لئے مل کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھئے! امریکہ اور سعودی عرب دونوں ہم سے اپنا کام نکلوا چکے ہیں، اب ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل خطرے میں ہے، لہذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنی سابقہ غلطیوں کو تسلیم کریں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply