• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پیٹرز برگ روس میں مسلمان اور تُرکوں کی تاتاری مسجد ۔۔۔سلمیٰ اعوان

پیٹرز برگ روس میں مسلمان اور تُرکوں کی تاتاری مسجد ۔۔۔سلمیٰ اعوان

وہ دن جُمعے کا تھا اور میں ظہر کی نماز پیٹر ز برگ کی اکلوتی مسجد جو پیٹر اینڈ پال فوٹریس کے قریب تھی میں ادا کرنے کی شدید خواہش مند تھی۔
یہاں کتنے مسلمان ہیں؟ رُوسی اور دیگر ممالک کی تعداد کیا ہے؟ پاکستانی بھی ہیں؟۔۔اگر ہیں تو کس سلسلے میں یہاں مقیم ہیں؟ یہ وہ سوال تھے جو میرے ذہن میں کُلبلارہے تھے اب جو مشکل تھی وہ وقت تھا.جمعے کی نماز کب ہوگی؟عشاء رات گیارہ بجے ہوتی تھی۔ابھی تک تو ہم نمازیں سُورج کے رُخ روشن کی زوال پذیری کے تیرتُکّوں سے ہی ادا کرتے تھے۔

پیلس برج یا (Dvortsovyy  Most) کو پار کیا۔نیوا کے نظارے کسی پیشہ ور طوائف کی مانند اشارے بازی کرتے تھے پر میں نے بھی کسی نوعمر پرہیز گار کی طرح نظروں کو جھُکانے اور راستے پر مرکوز رکھنے پر توجہ کی۔
یہ پرہیزگاری پل بھر میں اُس وقت کو رے برتن کی مانند تڑخ گئی جب روسٹرل کا لم دکھائی دیئے۔ایسا دلفریب منظر تھا کہ آنکھیں چُرانی ممکن نہ تھیں۔ ڈل سُرخ رنگ کے دو مینار نیوا کے پانیوں میں اُترے ہوئے نیم قوسی چبوترے پر بڑی تمکنت سے کھڑے تھے۔ان کے وجود پر کشتیوں کے ہم شکل آہنی نمونے اُبھرے ہوئے تھے یوں جیسے کسی بڑے آلو کے جسم پر آئی بڈز نکلے ہوئے ہوں۔یونانی خدوخال اور یونانی پہناؤں کے ساتھ نچلے چبوتروں پربڑے خوبصورت مجسّمے کھڑے بیٹھے دکھائی دیئے تھے۔ملحقہ وسیع وعریض لان جہاں سفید اور براؤن پھُولوں کی جیسے چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ہائے آنکھیں تو مانو جیسے غڑاپ سے ٹھنڈے ٹھار پانیوں میں غوطہ زن ہوگئی ہوں۔

یہ سب ایسے ہی دیکھا جیسے کسِی مسافر کو کہیں راہ میں چاند چہرے نظر آجائیں۔ وہ رُک کر اُنہیں کچھ محبت اور کچھ دھیان سے دیکھنا چاہے پر مسافرت کی مجبوریاں دھکیل کر آگے لے جائیں۔یہی کچھ میرے ساتھ تھا۔بس گنتی کی چند نظروں کی چور ضرور ہوئی۔ ہاں البتہ میں نے پلٹ کر بیٹھے اور کھڑے ان مجسموں کو یہ ضرور کہا۔
”وعدہ، میں پھر آؤں گی اور تمہارے ساتھ کچھ وقت گزاروں گی۔“

سڑک پار کی اور دوسری طرف بس کیلئے جا کھڑے ہوئے۔ بس نے پل کراس کیا اور پیٹروگراڈسکایاسٹورنہ Petrogradskaya Storna میں داخل ہوگئی۔ چڑیا گھر نظر آیا تھا۔ سوچا اِسے بھی دیکھنا چاہیے۔بُہت سی خوبصورت عمارتیں،بُہت سے سڑکوں کے موڑ کٹتے گئے۔شاہراہ Kamennoos Trovsky Prospekt کے ایک سٹاپ پر اُن دومہربانوں نے اُترنے کا اشارہ دیاجنکی ”تاتار موسک، تاتارموسک“ کہہ کہہ کر جان کھالی تھی۔

یہ پیٹروگراڈ سکایا کی لمبی مرکزی شاہراہ ہے جو ہر میٹیج کے پاس ہی ماربل پیلس کے ٹرواٹ سکایا Troitsky پُل سے شُروع ہوکر جزیرے کے آخرتک جاتی ہوئی Vyborgskaya آئی لینڈ میں داخل ہوتی ہے۔خدا کا انتہائی شکر تھاکہ جہاں اُترے مسجد وہاں سے دوہاتھ پر تھی۔
مسجد میں داخل کیا ہوئی دل کا صحرا جیسے کسی نخلستان میں بدل گیا۔کسی پھُول کی طرح کھِل گیا۔یہاں تو رنگوں، نسلوں، ملکوں کا ایک چھوٹا سا اجتماع تھا جو اپنی اپنی بولیاں بول رہا تھا۔یہاں تاتاری تھے۔ تُرکی تھے، افریقی، فلسطینی، الجزائری۔ قزّاخی، رُوسی، اُزبک، تاجک تھے۔جمّوں کا محمود تھا جس نے بے حد حیرت سے ہمیں دیکھا۔پر پاکستانی نوجوان ہمایوں سے ملنا تو گویا پردیس میں اپنے کسی عزیز سے ملنے کے مترادف تھا۔خوش طبع اور ملنسارسالڑکا جس نے ہیوی مکینیکل انجنیئرنگ ماسکو سے کی اور اب جینز اور جیکٹز کے بزنس کو پلان کرنے کی منصوبہ بندی میں مصُروف تھا۔کتنا بڑا اجتماع تھا۔ ہزار بارہ سو سے تو کسی صورت کم نہ ہوگا۔ عورتوں کی بھی کثیر تعداد تھی۔
زبانیں اجنبی، رنگ ونسل مختلف، لباس وتہذیب میں فرق.پر آنکھوں میں چمک ہونٹوں پر مسکرا ہٹیں، مصافحے، جھپّیاں، گالوں پر بوسے، محبت ویگانگت کی ہوائیں چاروں طرف رقص میں تھیں۔
ماؤں کے ساتھ اُن کے بچے بھی تھے۔ اُن کا شور شرابہ۔ کیسا خوبصورت شاندار سا بھریا میلہ لگتا تھا۔

ایک قزّاقی خاندان تو محبت کے گاڑھے شیرے کی مانند تھا۔ جس نے ہمیں بھی اپنے ساتھ چپکا لیا۔ صاحب خاندان کنادی محمد دیکوف، بیوی اُمّ سلمیٰ دیکوف اور ماشاء اللہ سے پانچ بچوں کے ہمراہ ہمارے لئے اِس درجہ مہربان ثابت ہوا کہ ہمیں نماز جمعہ کے بعد اپنے گھر لے جانے کے لئے بضد۔
میرا بس چلتا تو میں اُن کی گاڑی کی ڈکی میں گھُس کر اُ ن کے ساتھ ہی چلی جاتی۔مہر النساء یکسر انکاری ہو گئی تھی۔ اُسے کسی چھوٹے یا ذرا بڑے فلیٹ کے کسی کمرے میں بیٹھ کر خاموش تماشائی بننے کی ضرورت کیا تھی؟ ایسے مواقع پر اُسے میرا وَن وُیمن شو یقیناً بُہت کھِلتا ہو گا۔

دیکوف اچھی انگریزی بول لیتا تھا۔بیوی کو ویسے ہی محبت کا جاگ لگا ہوا تھا۔ گھر کا نمبر وغیرہ سب نوٹ کیا۔جلد ہی آنے کی حامی بھری۔اذان کی دلکش آوازنے جیسے میرے تیزی سے لکھتے ہاتھوں کو روک دیا۔ بے اختیار میں نے آسمان کو دیکھا۔ پھر اس رنگ رنگیلے بھرے میلے کو۔ ہم میں سے ہر کوئی اِس پُکار کو سمجھتا تھا۔خواتین کے ساتھ اُوپر گیلری میں گئے۔ یہاں مزید خواتین سے تعارف ہوا۔ ہاتھ ملائے۔آنکھوں سے محبتیں چھلکائیں۔زبانیں اجنبی پردرمیان میں ایک ایسی رشتے داری، ایک ایسا تعلق، ایک ایسا ناطہ، جوایک لڑی میں پروئے۔ملّت اسلامیہ کی لڑی۔گویہ لڑی بے عَملوں کی لَڑی تھی۔
اب اپنی زبوں حالی پر آنکھوں کو توبھیگنا تھا۔سوجونہی سجدے میں سرگرا وہ بھیگیں اور اشکوں نے جگہ بھگوئی۔کاش کہیں کوئی انمول ہیرا جنم لے جو اس بکھری ہوئی،ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، حرص وہوس اور اقتدار کے پھندوں میں اُلجھی ہوئی ملت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردے۔
سلام پھیرا تو اقبال ہونٹوں پر تھا۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اُخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
تبان رنگ و خو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

بھیگتی آنکھوں سے ہی ظہر پڑھی۔فارغ ہوئی تو مسجد کی اندرونی زیبائش پر نگاہ کی۔ اب کیتھڈرل چرچوں کی رنگینیوں اور شوخیوں کا طلسم سر میں سمایا ہوا ہو تواس بیچاری نے کسی غریبڑے کی حددرجہ سادی سی لڑکی جیسی ہی دکھنا تھا۔تاہم اُس کے مینار وگنبد اس کی اندرونی زیبائش میں نیلی ٹائیلوں کا کثرت ِاستعمال اِس گمان میں ڈالتا ہے کہ اِسے ا ستنبول کی شہرہ آفاق نیلی مسجد کی طرح بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
میں نے خود سے ہی یہ سوال کیا تھا۔
”میرا یہ قیافہ بعد میں درست ثابت ہوا۔“

Advertisements
julia rana solicitors

دیکوف کے مطابق مسجد کوئی دو سو سال پرانی ہے۔ دراصل رُوسیوں اور تُرکوں میں آئے دن کی سرحدی جھگڑوں کو نپٹانے اور صُلح کروانے میں رُوس کے تاتاریوں کا بڑا کردار ہے۔ یہ مسجد بھی ایسے ہی کسی خیر سگالی معاہدے کی دین ہے۔ جس کے جوابی نتیجے میں ماسکو نے تُرکی میں کلچرل سنٹر اور تُرکوں نے یہ مسجد بنائی۔ نیلے رنگ کی کثرت سے اسے نیلی مسجد بھی کہتے ہیں۔یوں اسکا مرکزی گنبدتو مجھے اسکندریہ کی ابو عباس مسجد جیسا نظر آیا تھا۔
مسجد کے صحن میں بنا ہو اگھر امام مسجد کا ہے۔ خطبہ ماسکو سے منظور ہو کر آتا ہے۔کمیونسٹ دور میں مسجد خاصی خستہ حال تھی۔ بعد کی حکومتوں نے توجہ دی اور مسلمانوں کے تعاون سے اِسے خوبصورت بنا دیا۔
بے عمل سی یہ عورت آنسوبہا کر جیسے ہلکی پھلکی ہوگئی تھی۔مسجد کے قریب ہی گھاس کے خوبصورت لان میں بیٹھ کرکلبسا کھایا۔ٹن پیک کا کولا پیا۔شکر الحمداللہ کہا اور پیٹر اینڈ پال فوٹریس کیلئے چلے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply