ٹکراو تو نظر آ رہا ہے۔۔۔۔ طاہر یسین طاہر

 ریاستیں اداروں کے ستون پہ ہی قائم رہتی ہیں۔ ادارے کمزور اور شخصیات مضبوط ہوں تو ریاستیں ٹکڑوں میں بٹ جایا کرتی ہیں۔ انارکی پھیل جایا کرتی ہے، طوائف الملوکی کا راج ہوتا ہے۔ جب بھی حکومت یا ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ادارے کا انتظام و انصرام سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے، مگر آمرانہ انداز کے بجائے جمہوری طریقے سے، ریاست اپنی اصل میں ایک سیاسی ادارہ ہی تو ہے۔ عمرانیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ریاست اور حکومت دو الگ چیزیں مگر باہم ان کا ربط جتنا گہرا ہوگا، سماجی حیات اسی قدر سہل اور عوام خوشحال ہوں گے۔ آمرانہ جبر یا آمریت کا نزول وہاں ہوتا ہے، جہاں سیاست دان ناکام ہو جائیں۔ دنیا بھر کی آمرانہ یا فوجی حکومتوں کی تاریخ یہی ہے کہ وہاں سیاست دان باہمی مفادات کی جنگ میں اس حد تک الجھ گئے کہ ریاستی امور کو چلانے کے لئے فوج کو آگے آنا پڑا۔ آمرانہ حکومتوں کی وجوہات پہ جب بھی کوئی دانشور، کوئی اخبار نویس بات کرتا ہے تو سوشل میڈیا کے جز وقتی لکھاری، ایسے اخبار نویسوں کو اپنے طنز کے تیروں پہ لے لیتے ہیں۔ مگر کوئی تاریخی جزئیات کو دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا، نہ ہی واقعات سے نتیجہ اخذ کرنے کی زحمت کی جاتی ہے۔

یہی چیز سماجی ہیجان ہے۔ اس ہیجان کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، سماجی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی۔ ہم بدقسمتی سے ان ساری وجوہات کے شکار معاشرے کا حصہ ہیں۔ اسی لئے ہمارے ہاں حقائق کے بجائے افواہوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ نظریات کے بجائے شخصیات پہ جان نچھاور کی جاتی ہے۔ قابلیت کے بجائے رشتہ داری اور معاشی برتری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اشتہارات کے رخ پہ خبروں و تجزیات کا زاویہ بنائے رکھتا ہے۔ پرنٹ میڈیا البتہ ابھی بھی الیکرانک میڈیا سے بہتر اور زمینی حقائق کو ملحوظ رکھے ہوئے ہے، بلکہ یوں سمجھیں کہ اب تو میڈیا کے مختلف حصوں میں بھی ٹکرائو واضح ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا۔ یہ موضوع مگر کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ریاستوں میں اداروں کے درمیان ٹکرائو کیوں ابھرتا ہے؟ کیا اس میں سیاستدانوں کی کمزوریاں ہوتی ہیں یا اداروں کا عضو معطل ہو کر رہ جانا۔؟ میرا خیال ہے کہ وہ، جن کے ہاتھ زمام اقتدار ہوتی ہے، ان کی نااہلی ہی بالآخر اداروں کے درمیان ٹکرائو کی کیفیت کو جنم دیتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کا بنیادی مسئلہ خاندانی بادشاہتیں ہیں، ان کی شکل براہ راست بادشاہت کی سی ہو یا خاندانی جمہوری نظام کی۔ اس نوع کے شخصی و خاندانی مفادات کے محافظ نظام کے ہوتے ہوئے نہ تو ادارے آزادی سے کام سرانجام دے سکتے ہیں، نہ ہی اظہار کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور نہ ہی سیاسی شعور سطح ِ بلوغت کو چھو پاتا ہے۔

یہ تکلیف دہ کیفیت معاشروں میں کئی عشروں تک برقرار رہتی ہے۔ لیکن سماج اور تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سماج انگڑائی لیتا ہے۔ شعور بیدار ہوتا ہے۔ نظام ِ کہن کے خلاف خلقِ خدا آواز بلند کرتی ہے۔ یہ جدوجہد سماج میں بڑی تبدیلی لاتی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی فوری نہیں ہوتی بلکہ ایک ہیجانی، بعض اوقات تو خونی حالات کا سامنا کرنے کے بعد آتی ہے۔ انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب حکمران طبقہ عوامی خواہشات و ضروریات کے برعکس اپنی ترجیحات طے کرتا ہے تو عوامی سیلاب طبقہ اشرافیہ کو بہا لے جاتا ہے۔ قوموں کی تاریخ جدو جہد سے ہی عبارت ہے۔ لمحہ موجود میں ہم جس سیاسی و معاشی ہیجانی کیفیت سے گذر رہے ہیں، اس کے ذمہ دار اکیلے سیاستدان نہیں، مگر سب سے زیادہ ذمہ دار البتہ ضرور ہیں۔ سیاستدانوں کے پیش نظر اپنی اولاد اور خاندان کا مفاد اولین رہا، پاکستانی عوام یا بالفاط دیگر ووٹر کا نہیں۔ اداروں میں من پسند افراد کی تقرریاں اور پھر نوازشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ قریب قریب سب ہی جمہوری و غیر جمہوری حکومتوں نے اپنائے رکھا۔

اس اقربا پروری اور نوازشِ بے جا کی وجہ سے ریاست کے اہم ترین ادارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی خواہشات کی تکمیل کا گڑھ بنتے چلے گئے۔ اس عمل کا نتیجہ سماج کے حق میں منفی نکلا۔ اب اداروں نے جبکہ آزادی سے پرواز کرنا چاہی تو ان پر سیاسی و سماجی دبائو بڑھانے کے لئے سیاسی طاقتیں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ اس امر میں کلام نہیں کہ عدالت عظمٰی کو زیر التوا کیسز کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے، مگر ہم عدالت کی توجہ اس طرف دلا کر باقی اہم معاملات سے صرفِ نظر کرنے کی دعوت بھی نہیں دے سکتے۔ بے شک اس وقت نااہل ہونے وانے وزیراعظم میاں نواز شریف نے جس بیانیے کو اپنا لیا ہے، اس کا منطقی نتیجہ ریاست کے حق میں ثمر بار نہیں ہوگا۔ میاں صاحب اشارے کنائے میں فوج پہ اور کھل کر عدلیہ پہ تنقید کر رہے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف آنے والے فیصلوں میں فوج کی مرضی و منشا شامل ہے۔ درحالیکہ انسان کو اس کے اعمال ہی لے ڈوبتے ہیں۔ ملک داخلی و خارجی محاذ پر مسائل کا شکار ہے۔ نئی نویلی تحریکوں کے ذریعے ملکی سلامتی کے اداروں کو دبائو  میںلانے کی عالمی سازشیں اپنا اثر دکھانے کو بے تاب ہیں۔ ایسے میں ریاست کے لئے اہمیت کسی شخص یا اس کے خاندان و اقربا کی نہیں بلکہ اداروں اور ان کے استحکام کی ہوا کرتی ہے۔ سماجی حیات کی تاریخ یہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply