خوف کے بُت توڑ دو/پروفیسر رفعت مظہر

حقیقی آزادی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے عمران خاں نے کہا “خوف کے بُت توڑ دو اور جہاد کے لیے نکلو”۔ یہ پتہ نہیں کس قسم کا جہاد ہے جس کی تلقین عمران خاں کر رہا ہے۔ ہمیں تو جہاد فی سبیل للہ کا پتہ ہے جس کے بارے میں فرما دیا گیا “اب اِن لوگوں کو اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے جو اپنی دنیاوی زندگی کو آخرت کی زندگی کے بدلے فروخت کرتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہوا مارا جائے یا غالب آئے ہم اُسے عنقریب اجرِعظیم دیں گے” (سورۃ النساء آیت 74)۔

یہ کیسا جہاد ہے جو ہوسِ اقتدار کی خاطر کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسا جہاد ہے جس میں قوم کے بچوں سے تو قربانی مانگی جا رہی ہے جبکہ اپنے تینوں بچے انگلینڈ کی محفوظ پناہ گاہ میں ہیں؟ یہ کیسا جہاد ہے جس میں کپتان خود تو پُرتعیش کنٹینر میں اور کارکُن سڑکوں پر دھکے کھاتے ہوئے۔ یہ کیسا جہاد ہے جس میں فیملیز کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ خان کی اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی بنی گالہ کے محل میں محوِاستراحت؟ یہ کیسا جہاد ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “فیملیز انجوائے کریں گی”۔ (شاید دَورِ جدید کے جہاد ایسے ہی ہوتے ہوں گے)۔

یہ کیسا جہاد ہے جس کے بارے میں کپتان کے قریب ترین ساتھی فیصل واوڈا نے کہا “مجھے تو اِس لانگ مارچ میں خون ہی خون، لاشیں ہی لاشیں اور جنازے ہی جنازے نظر آرہے ہیں”۔ یقیناََ قوم خوف کے بُت توڑنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ کسی کی ضِد، انااور نرگسیت کی بھینٹ چڑھنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ آج تحریکِ انصاف اور فوج آمنے سامنے ہیں تو کیا عمران خاں قوم کو فوج کے ساتھ تصادم کے لیے تیار کر رہا ہے؟

پاک فوج عمران خاں کے گزشتہ 6 ماہ سے واہی تباہی بکنے پر صبر سے کام لیتی رہی لیکن”تنگ آمد بجنگ آمد” کے مصداق بالآخر پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کو پریس کے سامنے آکرجواب دینا پڑا جس سے کئی راز عیاں ہوئے۔ پاک فوج کے ترجمان تو میڈیا بریفنگ کے لیے آتے ہی رہتے ہیں لیکن شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو بھی پریس کے سامنے آنا پڑا حالانکہ اُنہوں نے میڈیا کو اپنی تصویر تک سامنے لانے سے منع کر رکھا ہے۔

ہمارے خیال میں یہ میڈیا بریفنگ غالباََ “غلط انتخاب” پر پشیمانی کا اظہار تھا لیکن “خود کردہ را علاجے نیست”۔ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے سارے لوٹوں کو گھیر گھار کے تحریکِ انصاف میں شامل کروایا پھر میڈیا کو حکم صادر ہوا کہ کپتان کی گھنٹوں بلکہ پہروں لائیو کوریج کرنی ہے۔ حصولِ مقصد کے لیے عدلیہ کو دباؤ میں لایا گیا۔ جس جج نے لیت ولعل سے کام لیا اُسے نشانِ عبرت بنانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ایک سازش کے تحت میاں نوازشریف کو راستے سے ہٹایا گیا۔ad

عام انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھا کر کھُلی دھاندلی کروائی گئی۔ پھر بھی بات نہ بنی تو چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر عمران خاں کی حکومت قائم کر دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ قدم قدم پر وزیرِاعظم عمران خاں کی راہوں کے کانٹے چنے گئے۔ یقیناََ فوج نے یہ سب کچھ ملک وقوم کی بہتری کے لیے ہی کیا ہوگا لیکن بصد ادب پاک فوج کھوٹے کھرے کی پہچان نہ کر سکی۔ آج صورتِ حال یہ کہ عمران خاں کا ٹارگِٹ صرف پاک آرمی جس پر کپتان کے نزدیک ہر الزام واجب۔

اِس پریس بریفنگ میں عمران خاں کی امانتوں، صداقتوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی گئی۔ ڈی جی آئی ائس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے عمران خاں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “اگر آپ کی نظر میں سپہ سالار غدار ہے تو اُس کی ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے؟ اگر سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھُپ کر اُس سے کیوں ملتے ہیں؟ اُن کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت کے لیے توسیع کی پیشکش کیوں کی گئی؟ ماضی قریب میں اُن کی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے تھے؟”۔ اُنہوں نے مزید کہا “ملنا آپ کا حق ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ رات کو ملیں اور دن میں غدار کہیں۔

پاکستان کا آئین آزادیٔ اظہار کا حق دیتا ہے، کردار کشی کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی ادارے پر انگلی اُٹھا رہا ہے تو حکومت کو اُس پر ایکشن لینا ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے۔ بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے”۔ شک تو پہلے بھی نہیں تھالیکن ڈی جی آئی ایس آئی کی اِس پریس بریفنگ میں عمران خاں کے قول وفعل کا تضاد کھُل کر سامنے آگیا۔ جس جھوٹ کی بنیاد پر اُس نے اپنی سیاسی عمارت تعمیر کی، اُس کے اب ملیامیٹ ہونے کے آثارعیاں۔ اِس کے باوجود اگر اب بھی لوگوں کی ایک مخصوس تعداد اُس کا ساتھ دینے کے لیے مصر تو پھر اُن کے لیے صراطِ مستقیم کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

اِسی پریس بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سائفر کی مَن گھڑت کہانی کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ اُنہوں نے کہا “ہمارے لیے یہ حیران کُن تھاکہ 27 مارچ کو جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر ایسا بیانیہ بنایا گیا جس کا حقائق سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم آئی ایس آئی کی تحقیقات کو عوام کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن منع کر دیا گیا”۔ جہاں تک سائفر کا تعلق ہے اِس کے بارے میں تو آڈیو بھی آچکی جس میں عمران خاں نے کہا “ہم نے اِس پر صرف کھیلنا ہے”۔

گویا خان کے نزدیک ملکی سلامتی کی کوئی حیثیت نہیں۔ عمران خاں کے “سائفر ڈرامے” کی ہر فورم پر تردید ہوچکی۔ اِس کے باوجود بھی وہ امریکی سازش کا بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔ کیا یہ ملک وقوم کے ساتھ غداری نہیں؟ کیا یہ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کی سازش نہیں؟ اور کیا ایسے شخص کے لیے کوئی سزا نہیں جو آج بھی اِسی سازشی بیانیے کو لے کر سڑکوں پر دندناتا پھرتا ہے؟ کیا حکومت کو اُس وقت ہوش آئے گا جب خُدانخواسطہ کوئی سانحہ رونما ہو جائے گا؟ نسلِ نَو تو بے خبر لیکن ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اِس ملک کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ ہم مرتے دم تک وہ سانحہ نہیں بھول پائیں گے جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے گئے۔

آج عمران خاں ملک کے تین ٹکڑے ہونے کی بات کرتا ہے تو ہمارے حکمران خاموش تماشائی اور “ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم” کی عملی تصویر۔ سمجھ سے بالا تر کہ عمران خاں سرِعام اداروں کی کی تضحیک کرتااور اُنہیں دھمکیاں دیتا رہتا ہے لیکن اُس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اب تو ہمارے ازلی ابدی دشمن بھارت کے نیوزچینلز پر جشن کا سا سماں ہے۔ وہ عمران خاں کے گُن گاتے ہوئے اُس کے بیانات چسکے لے لے کر اِس لیے نشر کر رہے ہیں کہ اُس نے پاکستان کی سلامتی کی ضامن آئی ایس آئی کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا ہے۔ ایک انڈین میجر نے کہا کہ جو کام وہ اربوں روپیہ خرچ کرکے بھی کرنے سے قاصر رہے، عمران خاں نے پورا کر دیا۔ اُسے 10 سال کے لیے وزیرِاعظم بنوا دو تاکہ انڈیا کا بھلا ہو۔

عمران خاں نے جمعہ 28 اکتوبر کے لانگ مارچ کے لیے پنجاب کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہر ایک کم از کم ایک ہزار کارکُن اپنے ساتھ لے کر لبرٹی چوک پہنچے۔ لانگ مارچ 11 بجے لبرٹی چوک سے روانہ ہونا تھا لیکن اُس وقت تک لبرٹی چوک خالی پڑا تھا۔ مارچ ساڑھے 3 بجے لبرٹی چوک سے شروع ہوااور رات گئے داتا دربار پہنچ کر دَم توڑ گیا۔

29 اکتوبر (آج) کو کارکنوں کو شاہدرہ پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں اُس وقت تک تو شاہدرہ میں لانگ مارچ کے کہیں آثار نظر نہیں آرہے۔ 28 اکتوبر کو بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ اُس وقت تو کارکنوں کے نہ پہنچنے پر حماد اظہر اور اسد عمر کی آپس میں تُوتکار کی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔ غیرجانبدار ذرائع کے مطابق جب لبرٹی چوک سے مارچ شروع ہوا تو کارکنوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 5 ہزار تک تھی اور داتا دربار پہنچنے تک یہ تعداد بڑھ کر دَس، بارہ ہزار تک پہنچ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ آبادی والے لاہور میں تو اتنی تعداد مصروف سڑکوں پر ہر وقت چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ اِس لحاظ سے لانگ مارچ میں شرکاء کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی کیونکہ اِس میں تو پورے پنجاب کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply