جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

عزیزی وجاہت مسعود صاحب نے ان کے اپنے"ہم سب"میں فورتھ شیڈول کالعدم تنظیم کے رہنما احمد لدھیانوی کے انٹرویو کے حوالے سے اعتراضات پر اپنے ویڈیو انٹرویو میں محیر العقول تاویلات پیش کی ہیں جن کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ خاکسار لب کشائی کا سنگِ گراں اٹھانے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ یوں تو ان کے متعدد فرموداتِ عالیہ راقم کے ریگزارِ فکر میں تشویش کے بگولے لہرا گئے لیکن عرصہِ واردات کی طوالت سے پیدا ہونے والی اکتاہٹ کے پیشں نظر خاکسار چند اہم تر نکات پر خامہ فرسائی کا خطرہ مول لینے کی جسارت کرتا ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ وہ انٹرویو کو"تمدنی مکالمے" کی بنیاد پر جائز قرار دینے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ اندازہ کیجیے ایک فورتھ شیڈول کالعدم تکفیری تنظیم کے سربراہ سے "تمدنی" مکالمہ! یعنی چہ معنی دارد! یہ ایسی لسانی شعبدہ گری ہے جیسے امریکہ بہادر نے اپنے ایک نہایت مہلک بم کو ڈیزی کٹر کا نام دیا جو کہ ایک خوبصورت پھول ہے! بم کی پھول سے نسبت! تکفیریت اور فرقہ واریت کا تمدن سے رشتہ؟ یا جس طرح نیو لبرل جنگی گلوبلائزیشن میں کمزور و پسماندہ ملکوں کو تباہ و برباد کرنے کے بین الاقوامی جرم کو مابعدِ جدیدیت لسانی سانچے میں"تخلیقی تباہی"کے پر فریب معنی پہنائے جاتے ہیں۔اسی سے متصل ایک نکتہ یہ ہے کہ ان کے مطابق کسی قوم کی ترقی مادری زبان میں تعلیم سے نہیں بلکہ رائج زبان میں علم حاصل کرنے سے ہوتی ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سیاسی نعرہ بازی ہے۔ یہاں اس بات کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ وہ نیولبرل سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے بیانیے کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں کہ جو پوری دنیا کی ثقافتی تکثیریت کا اپنی صارفانہ ثقافت سے گلا گھونٹنے کے در پر ہے حالانکہ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ وجاہت مسعود خود تکثیریت کے داعی و مبلغ بھی ہیں لیکن نجانے کیوں قومی لسانی حقوق اور ان سے متعلق ثقافتی تکثیریت پر وہ تکثیریت کی دشمن نیو لبرل سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے پلڑے میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں اور یہ کوئی حادثہ نہیں۔ جملہ سیاسی سماجی معاملات پر وہ شعوری طور پر نیولبرل سرمایہ دارانہ نکتہ نظر کے مبلغ ہیں۔
خیر ان کے فکری تضاد و مغالطے یہیں تک محدود نہیں۔ تیسرے نکتے کے طور پر افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ وہ انٹرویو کو مکالمے اور مذاکرات سے گڈ مڈ کرتے ہیں اور دنیا کی تاریخ سے مخالف و متحارب سیاسی فریقوں کے درمیان واقع ہونے والے سیاسی"مذاکرات" کو احمد لدھیانوی کے "انٹرویو" کے جواز کے بطور پیش کرتے ہیں! کل ہی ایک فاضل قلمکار نے ان کی مدح میں قلمکار"بلونگڑوں" کو یہ نصحیت فرمائی تھی کہ وہ اپنی خوشہ چینی میں اول الزکر کے صحافیانہ قدوقامت کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ ان کی علمی بصیرت و صحافتی قدوقامت سے کس کمبخت کو انکار کی جسارت ہے لیکن اس خاکسار جیسے نو آموز کو بھی انٹرویو، مکالمے اور مذاکرات میں ان کا قائم کردہ استدلالی ربط الجھن میں ڈالے ہوئے ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایک انٹرویو کو نیلسن منڈیلا اور نسل پرست حکومت کے درمیان، گاندھی اور سامراجی برطانیہ کے درمیان سیاسی مزاکرات سے جائز ثابت کرنا کس عقلی اصول، منطقی کلیے یا صحافتی ضابطے کے تحت درست ہے یہ بھی اس کے لیے بعید از فہم ہے۔ یہ تو یوں ہے کہ کرکٹ کے معاملات کو ہاکی کے مسائل سے اس لیے جانچا جائے کہ دونوں کھیل ہیں۔ ہر گفتگو مکالمہ نہیں ہوتی۔ انٹرویو میں سوال و جواب ہوتے ہیں دو فکری فریقین کے درمیان مدلل بحث یعنی مکالمہ نہیں۔ مذکرات میں معاہدہ کیا جاتا ہے۔ گمان گزرتا ہے کہ جسے "ہم سب" نے انٹرویو کہا اور ہم سب نے انٹرویو سمجھا وہ دراصل کسی قسم کے"مذاکرات" ہی تھے کہ وجاہت صاحب نے ان کی مثالوں کے ذریعے اس انٹرویو کو جواز بخشنے کی کوشش کی۔ اس کا تاثر انٹرویو کے عنوان "اب میں آگیا ہوں، فکر کی کوئی بات نہیں"سے بھی ملتا ہے اور یہ سوال ذہن میں کلبلاتا ہے کہ احمد لدھیانوی کے انٹرویو سے"ہم سب" کی کونسی فکر دور ہوئی؟ خیر یہ ایک منطقی قیاس آرائی ہے کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں۔
چوتھا نکتہ خاص توجہ کا طالب ہے کہ اس کا تعلق براہِ راست ان کے بیانیے میں موجود فکری تضاد سے ہے۔۔ اس فکری پسپائی کا کیا کیجیے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وہ خود طالبان سے مذاکرات کی تجاویز دینے والے سیاسی حلقوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے اور ریاست سے پرزور مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ دہشت گردوں کی سرکوبی کرتے ہوئے اپنی رٹ کو قائم کرے۔ نیلسن منڈیلا اور گاندھی کے مذاکرات کی مثالیں تو اس سے قبل بھی موجود تھیں۔ ایک کالعدم تکفیریت پرست کے لیے سخت محاسبے اور ریاستی رٹ کے قیام کے مطالبے کے بجائے مکالمہ (یا مذاکرات) کیوں؟ بیانیے کی یہ الٹی قلابازی بھی اگر کچھ تاریخی مثالوں سے جائز ثابت ہو جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال خاکسار مزکورہ انٹرویو کی اشاعت سے لے کر اب تک انٹرویو کے مدافعین کے ردعمل سے جو اخذ کر پایا وہ دو محاوروں میں بیان کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ اول، چت بھی میری پٹ بھی میری انٹا بھی میرے باوا کا!اور دوئم، ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور!

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply