تہذیبوں کے تصادم کی یہ تفرقہ انگیزی/ابھے کمار

سیاسیات، بین الاقوامی امور اور سامری مطالعات کے حلقے میں امریکی دانشور پروفیسر سیموئل پی ہنٹنگٹن ایک بڑا نام ہے۔پروفیسر ہنٹنگٹن نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہاروڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر میں بطور ڈائریکٹر گزارا۔تحقیقی اور تصنیفی کاموں کے علاوہ، انہوں نے بہت سارے نوجوان اسکالرز کی علمی رہنمائی کی ہے،جو آج عالمی سطح پر رائے عامہ کو متاثر کر رہے ہیں اور پالیسی سازی میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔حالانکہ پروفیسر ہنٹنگٹن نے جمہوریت، فوج اور ریاست کے تعلقات، سیاسی نظام جیسے کئی اہم موضوعات پر کتابیں اور مقالے شائع کیے، مگر ان کو سب سے زیادہ مقبولیت “تہذیبوں کے تصادم” کے عنوان سے شائع ان کے مقالے سے ملی تھی۔آج سے ٹھیک تیس سال قبل، امریکہ کے  مشہور جریدہ “فارن افیئرز” میں یہ مقالہ چَھپا تھا، جس پر خوب بحث ہوئی۔تین سال بعد پروفیسر ہنٹنگٹن نے اپنے کام کوآگے بڑھایا اور اسی عنوان سے ایک موٹی کتاب لکھ ڈالی۔آج ہم ان کی انہی تحریروں پر گفگتو کرنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیونکہ اس تصنیف نے عالمی دنیا کو ثقافتی اور مذہبی خطوط پر تقسیم کر ڈالا اور تہذیبوں کے درمیاں غلط فہمیاں بڑھائیں۔ بالخصوص، اسلام اور مسلم معاشرے کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اسلاموفوبیا کی آگ میں تیل ڈالا گیا۔اگر ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے ، تو پروفیسر ہنٹنگٹن اور ان جیسے اسکالرز کی تحریروں کا مدلل علمی جواب دینا ہوگا۔

پروفیسر ہنٹنگٹن کا دعویٰ ہےکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، عالمی سیاسی نظام بدل رہا ہے اور اب تصادم کے اسباب ثقافتی بن گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ دور میں تصادم کی وجوہ قومی ریاستوں کے درمیان اختلافات تھے، وہیں سرد جنگ کے دوران نظریاتی ایشوز پر کشیدگی دیکھی گئی، مگر آنے والے دور میں لڑائیوں کے بنیادی اسباب کلچرل ہوں گے۔ تہذیبوں کے تصادم سے متعلق مفروضہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے دور میں دنیا بھر میں تصادم کی بنیادی وجوہ نہ تو نظریاتی اختلاف ہیں اور نہ ہی اقتصادی مسائل ہیں، بلکہ نئے دور میں انسانیت کے مابین جھگڑے کے غالب اسباب کلچرل ہیں۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ جہاں عالمی سیاست میں قومی ریاست کا کلیدی رول برقرار رہے گا، وہیں اب کشمکش تہذیبوں کے درمیاں ہوگی۔یعنی ایک خاص تہذیب سے وابستہ قومی ریاستوں کا گروپ دوسری تہذیب کے گروہ سے ٹکرائے گا۔ان کی باتوں کا اختصار یہ ہے کہ تہذیبوں کے مابین تصادم ہی عالمی سیاست کی بڑی حقیقت ہوچکی ہے۔اتنا ہی نہیں پروفیسر ہنٹنگٹن نے دنیا کو مختلف تہذیبوں میں بھی تقسیم کیا ہے، جیسے مغربی تہذیب، کنفیوشس تہذیب، جاپانی تہذیب، اسلامک تہذیب، ہندو تہذیب ,سلاو آرتھوڈوکس تہذیب، لاطینی امریکی تہذیب اور افریقی تہذیب۔ ان کی تحریر میں مغربی اور عیسائی تہذیب کی بالادستی کے حق میں تعصب دیکھا گیا ہے، وہیں اسلامک تہذیب کا خوف پیدا کیا گیا ہے۔علاوہ ازین، غیر مغربی تہذیبوں کی خدمات حصولیابی اور تہذیبوں کے مابین آپسی میل جول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔اس کے بعد پروفیسر ہنٹنگٹن  نے مغربی دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں ثقافتی اور مذہبی شعور نہ صرف بڑھا ہے، بلکہ اسی بنیاد پر سیاسی اور اقتصادی گولبندی ہو رہی ہے۔یعنی ان کا پیغام مغربی ممالک کے ارباب اقتدار کو یہ ہے کہ وہ غیر مغربی تہذیبوں کے خلاف خبر دار رہیں۔مگر ان کا سب سے بڑا نشانہ اسلامک اور مسلم تہذیب ہے۔ تبھی تو انہوں نے مغربی تہذیب اور اسلامک تہذیب کے بیچ بنیادی تصادم کی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ان کی یہ بات بھی ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے کہ عیسائیت اور اسلام کے مابین گزشتہ ۱۳۰۰ سالوں سے لڑائی چل رہی ہے، کیونکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان کامن باتیں ہیں۔ ہزاروں بار عیسائیوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔حضرت علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی چھوٹی سی کتاب رحمت عالم میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جب اس اللہ کے نبی حضرت محمد صاحب کے عہد میں مسلمانوں کے خلاف ظلم اور زیادتیاں بڑھنے لگیں تو مسلمانوں نے ہجرت کی۔ بحر احمر کے کنارے مقیم افریقہ کے جیش ملک کے نیک عیسائی بادشاہ کے پاس مسلمان پہنچے اور اس نے مسلمانوں کی مدد کی اپنے ملک میں بڑے امن و امان میں انہیں رکھا۔حضرت عیسیٰ کا  مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح احترام کرتے ہیں اور ان کو نبی مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ عیسائیت اور اسلام کی تعلیمات، بھی ایک ہی ہیں۔مگر تہذیبوں کے تصادم کے مفروضہ کو ثابت کرنے کی جلدبازی میں ان تاریخی اور زمینی حقیقتوں کی پردہ پوشی کی گئی ہے، اور مسلم اور عیسائی حکمرانوں کے سیاسی اختلافات کو حد سے زیادہ بڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور انہیں تہذیبی تصادم کا نام دے دیا گیا ہے۔

اتنی کمزوریوں کے باوجود بھی تہذیبوں کے تصادم کی تفرقہ انگیز باتیں آج بھی لوگوں کے اذہان میں پیوست ہیں۔ارباب اقتدار اور سکیورٹی سے وابستہ ماہرین کی ایک بڑی جماعت پروفیسر ہنٹنگٹن کی مذکورہ دلیل کی پیروی کرتی ہیں۔ مگر سیکولر، اور بائیں بازو کی جماعت ان کی تھیوری کو خارج کرتی ہے۔حالانکہ آج پروفیسر ہنٹنگٹن ہمارے درمیاں نہیں ہیں، مگر ان کی تحریر کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں بہت ساری حکومتیں پالیساں وضع کرتے وقت تہذیبوں کے تصادم کے مفروضہ سے متاثر ہیں۔یاد رہے کہ دہشت گرد کے خلاف،جو عالمی جنگ اس صدی کی شروعات میں چھیڑی گئی اور جس کی زد میں لاکھوں معصوم لوگ  آئے، ان سب کے پیچھے تہذیبوں کے تصادم کا مفروضہ بھی کارفرما ہے۔پروفیسر ہنٹنگٹن کی تحریر نے یہ ناقابل قبول دلیل دینے کی کوشش کہ ہے اسلامی اور مسلم معاشرے جمہوریت، سیکولرازم، جدیدیت، روشن خیال نظریات اور ترقی پسند تحریکوں کے حریف ہیں۔ پروفیسر ہنٹنگٹن نے دانستہ طور پر مسلم سماج کو ایک ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے اور ان کے مابین طبقاتی نظام، جنسی غیر برابری، ذات برادری پر مبنی عدم مساوات، علاقائی اور مسلکی اختلاف پر پردہ ڈال دیا ہے۔اس طرح مصنف نے اپنی تھیوری کو سچ ثابت کرنے   کی کوشش میں مغرب اور اسلام کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے اور ان تہذیبوں  کے اندر موجود آپسی اختلافات کو غائب کر دیا ہے۔مذکورہ مفروضہ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے مغربی دنیا میں موجود طبقاتی غیر برابری، جنسی عدم مساوات اور نسلی تعصب پر بھی پردہ ڈال دیا ہے تاکہ  اس تاثر کو فروغ دیا جائے کہ مغرب کو اصل خطرہ اسلام اور مسلم ممالک سے ہے۔

پروفیسر ہنٹنگٹن کی تحریر کی ایک اور بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے داخلی اختلافات پر پوری طرح سے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ان کی باتوں میں غیر برابری پر مبنی بین الاقوامی اقتصادی نظام پر بھی کوئی گفتگو نہیں کی گئی ہے۔دنیا میں امیر غریب کی کھائی گہری ہوتی جا رہی ہے، اس پر بھی کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں خطرناک صورت حال اختیار کرتی  جا ری ہیں، مزدوروں اور اقلیتوں پر مسلسل حملے بڑھ رہے ہیں، خواتین ہر روز امتیازات جھیل رہی ہیں، ان ساری باتوں کو بھی انہوں نے اپنی گفتگو سے باہر رکھا ہے۔ اس بات پر بھی کوئی چرچہ نہیں ہےکہ وہ کون سی طاقتیں ہیں، جو مسلم ممالک میں جمہوری تحریک کی جگہ غیر جمہوری قوتوں کی پشت پناہی کرتی آ رہی ہیں۔ مسلم ممالک کے قدرتی وسائل پر کن کوگوں کی لالچی آنکھیں جمی ہوئی ہیں، اس پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔اس تاریخی حقیقت کو فراموش کر دیا گیا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تعاون، اختلاف کے مقابلے، کہیں زیادہ بڑی حقیقت ہے۔کیا اس بات سے انکار کیاجا  سکتا ہے کہ دنیا میں علم، تجارت، ایجاد، سائنس کی ترقی کے پیچھے کسی ایک قوم یا کسی ایک تہذیب کا واحد رول نہیں رہا ہے، بلکہ دنیا کی تمام تہذیبوں نے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں تک کہ یورپ میں جو نشاط ثانیہ کا دور آیا اور پھر جدیدیت کا ابھار ہوا، ان میں بھی اسلامک دانشوروں کا بڑا رول رہا ہے۔یونان کے بڑے بڑے مفکرین کی تحریروں کو پڑھ کر ہی یورپ میں بیداری آئی تھی اور ان تحریروں کو مسلم دانشوروں نے عربی میں ترجمہ کرکے  انہیں دفن ہونے سے بچا یا تھا۔اسی طرح جدید دور میں کئی بڑی ایجادات ہوئی ہیں،ان میں بھی مسلم دانشوروں کی خدمات شامل  رہی ہیں۔ان باتوں کو جب ہم نظروں کے سامنے رکھتے ہیں تو  یہ بات واضح ہو جاتی  ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم نہیں بلکہ تعاون اور مشترکہ وراثت کی بات بڑی حقیقت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ان کی دلچسپی سماجی انصاف اور اقلیتوں کے حقوق جیسے موضوعات میں ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply