جیسی قوم ،ویسے حکمران

دس لوگوں کے ساتھ مکالمہ کرنے کے بعد مزید دس لوگوں سے گفت و شنید ہوئی مگر ڈھاک کے وہی تین پات۔۔۔۔ مکالمے کے دوران جب لوگوں سے استفسار کیا گیا کہ آپ کس سیاسی جماعت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو تمام لوگوں کا ایک ہی جواب تھا اور ایک ہی آواز۔۔۔ کہ عوام کے معاملے میں کوئی بھی سیاسی جماعت مخلص نہیں،سب سیاسی جماعتیں اپنا پیٹ بھرنے میں لگی ہوئی ہیں، یہ وہ حکمران ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ عوام کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیں۔۔کچھ افراد کا ردِ عمل سخت نازیبا الفاظ کی صورت سامنے آیا کو ناقابل اشاعت ہے۔جب مکالمہ اختتام کو پہنچا تو اس بات نے کافی پریشان کیا کہ جب تمام لوگ ان سیاسی جماعتوں سے بیزار ہیں تو پھر وہ کون سی مخلوق ہے؟ جو ان حکمرانوں کو منتخب کرتی ہے۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ حکمرانوں کی ان پالیسیوں سے بیزار ہے۔عوام سمجھتی ہے کہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہےاور ہماری ان تک رسائی نہیں،اور ہم سے ٹیکس کی مد میں ہر چیز کی کٹوتی ہوتی ہے۔حکمرانوں کی عیاشیاں پوری نہیں ہوتیں اور غریب عوام ہے کہ دن بدن کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔تعلیم کے فقدان سے لیکر صاف پانی کی فراہمی تک،کچھ بھی تو مکمل میسر نہیں ۔
جب غریب ان زیادتیوں کو دیکھتا ہے تو وہ بے اختیار اپنے حکمرانوں سے گلہ کرتا نظر آتاہے کہ ہم اب تک خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کررہے ہیں اور حکمران ہمارے ہی ٹیکسوں سے عیاشیوں میں مصروف ہیں۔جب غریب اس تفریق کو دیکھتا ہے تو وہ اندر سےبھڑک جاتا ہے اور بغاوت سر ابھارنے لگتی ہے۔اکثر لوگوں کو بھوک وافلاس نے غلط راستے پر ڈالا ہے۔ یہی لوگ ایک دن معاشرے کے لیئے ناسور بن جاتے ہیں۔اگر حالات اسی دھارے پر بہتے رہے اور حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر وہ دن دور نہیں جب قوم ایک انقلاب کی راہ تکتی نظر آئے گی اور حکمرانوں کو نہ منہ چھپانے کی جگہ ملے گی اور نہ ہی راہ فرار۔اب بھی وقت ہے ۔۔۔۔حالات کو بہتری کی طرف لےجایا جاسکتا ہے۔عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کی جائیں ،کیونکہ ستر سالہ استحصال کے بعد اب عوام مزید استحصال کی متحمل نہیں،عوام مزید دھوکے نہیں کھا سکتی، اب اپنا محاسبہ کرکےاپنی کوتاہیوں کو سدھارنا ہوگا ،کیوں یہ حقیقت روزِ روشن کی مانند عیاں ہے کہ “جیسے عوام ویسے حکمران”بہتر ہے اپنا آپ پیش کرو اور خود کو ٹٹولو کہ غلطیاں کہاں ہیں تاکہ ان کا سدِ باب کیا جا سکے،جب ہم اپنا محاسبہ کریں گے تو ہمارے ساتھ معاملات بھی اچھے ہوں گے۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔آمین!

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply